کیا اعتراف قتل سے پھر کر ظاہر جعفر سزا سے بچ جائے گا؟

اسلام آباد میں ایک معروف بزنس مین کے بیٹے ظاہر جعفر کے ہاتھوں سفاکانہ طریقے سے قتل ہونے والی لرکی نور مقدم کے والد سابق سفارتکار شوکت مقدم نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ملزم کی جانب سے اعتراف قتل سے مکرنے کا آخری ہتھکنڈہ بھی رائیگاں جائے گا اور اسے پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے گا۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت مقدم کا کہنا تھا کہ ظاہر جعفر انکی بیٹی کے قتل سے اب تک اپنا جرم تسلیم کر رہا تھا لیکن جب فیصلے کا وقت قریب آیا ہے تو اس نے موت کے پھندے سے بچنے کے لیے لیے ایک جھوٹی کہانی گھڑتے ہوئے اعتراف جرم سے انکار کر دیا یے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو گی۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ نور مقدم کے قتل کیس میں انصاف ہوگا اور ظاہر جعفر کو پھانسی دی جائے گی۔
خیال رہے کہ 9 فروری کو نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے اعتراف جرم سے پھرتے ہوئے یہ دعوی کیا ہے کہ اس پر قتل کا الزام جھوٹا ہے۔ اسلام آباد کے ایک رئیس بزنس مین کی بگڑی ہوئی اولاد نے اب یہ جھوٹی کہانی گھڑی ہے کہ 20 جولائی 2021 کے دن اسکے گھر پر مقتولہ نقر مقدم نے زبردستی منشیات کی پارٹی رکھی ہوئی تھی جس میں نشہ کرنے کے بعد وہ خود بے ہوش ہو گئے تھے۔ جب انھیں ہوش آیا تو دیکھا کہ کوئی نور مقدم کو قتل کر چکا تھا۔
9 فروری 2022 کو نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل نے بھی مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت کے 25 سوالات کے جواب دیتے ہوئے یہی موقف اپنایا کہ قتل ظاہر جعفر نے نہیں کیا ہے۔ ظاہر جعفر کے وکیل عثمان ریاض گل نے عدالت کے سامنے یہ بھی کہا کہ ان کے موکل کا نور مقدم کے ساتھ تعلق مقتولہ کی مرضی سے تھا اسی لیے ڈی این اے میں ان کی رپورٹ مثبت آئی ہے۔
واضح رہے کہ کیس میں ڈی این اے کی رپورٹ میں نور مقدم کو قتل کرنے سے پہلے ان سے ریپ ثابت ہوا تھا اور جائے وقوعہ سے حاصل کیے گئے نمونے ظاہر کے ساتھ میچ کرگئے تھے۔ پولیس نے قتل کے ساتھ ملزم کے خلاف ریپ کی دفعات کا بھی اضافہ کیا ہے۔
ملزم ظاہر جعفر کے وکیل جب جواب سنا رہے تھے تو کیس کا مرکزی ملزم عدالت میں اونگھتا پایا گیا جس پر اسے اٹھ کر سیدھا ہو کر بیٹھنے کا حکم دیا گیا۔ ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی طرف سے ملزم کو دیے گئے سوالنامے کا جواب دیتے ہوئے اسکے وکیل عثمان ریاض گل کا کہنا تھا کہ 18 جولائی 2021 کو نور مقدم اپنی مرضی سے ان کے موکل کے گھر آئی تھی اور انھوں نے کبھی بھی نور مقدم کو اغوا نہیں کیا تھا۔ واضح رہے کہ عدالت نے ضابطہ فوجداری کے تحت ملزمان کے بیانات ریکارڈ کرنے کے لیے انھیں 25 سوالات پر مشتمل ایک سوالنامہ دیا گیا تھا جو کہ اس مقدمے میں اب تک پیش کی گئی شہادتوں سے متعلق تھے۔
عثمان ریاض گل نے ملزم ظاہر جعفر کی جانب سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ 18 جولائی کو مقتولہ نے ان سے رابطہ کیا جس میں ایک ڈرگ پارٹی کا اہتمام کرنے کو کہا لیکن ملزم نے انکار کر دیا۔ ملزم کے وکیل نے دعوی کیا گیا کہ اسی روز مقتولہ نور مقدم اس کے گھر آ گئی جس کے پاس بڑی مقدار میں منشیات بھی تھیں۔ بے شرم وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کو گزشتہ برس 19 جولائی کو امریکہ جانا تھا اور اس کی ٹکٹ بھی کنفرم تھی۔
اس نے کہا کہ نور مقدم بھی ان کے ساتھ امریکہ جانا چاہتی تھی اور ٹکٹ خریدنے کے لیے اسنے دوستوں سے پیسے بھی لیے تھے۔ ظاہر جعفر کے وکیل کا کہنا تھا کہ مقتولہ نور مقدم نے زبردستی ملزم کے گھر پر ڈرگ پارٹی کا انتظام کیا جس میں اس نے اپنے دوستوں کو بھی بلا لیا۔
کپتان کو گھر بھجوانے جانے کا پلان کتنا فول پروف ہے؟
وکیل نے نہایت بے شرمی سے جھوٹی کہانی سناتے ہوئے یہ دعوی کیا گیا نور مقدم نے 20 جولائی کو اپنے دوستوں کو ملزم کے گھر دعوت پر بلایا جبکہ اس کے والدین اور رشتہ دار عید کا تہوار منانے کے لیے کراچی گئے ہوئے تھے۔ اس نے کہا کہ جب ڈرگ پارٹی شروع ہوئی تو ان کے موکل یعنی ملزم ظاہر جعفر پر بھی نشہ غالب آ گیا اور وہ مد ہوش ہو گیا۔ جب سے ہوش آیا تو اس نے خود کو ایک کرسی کے ساتھ بندھا ہوا پایا۔
ظاہر جعفر کے وکیل کا کہنا تھا کہ کچھ ہی دیر کے بعد اسلام آباد پولیس کے اہلکار یونیفارم اور سادہ کپٹروں میں ان کے موکل کے گھر پر آئے اور اس دوران اسے معلوم ہوا کہ ڈرگ پارٹی میں کسی نے نور مقدم کو قتل کردیا ہے۔
ظاہر جعفر کے وکیل کا کہنا تھا کہ پولیس نے جائے حادثہ سے جو آلہ قتل برآمد کیا ہے اس پر ظاہر کی انگلیوں کے نشان نہیں تھے۔
اس نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے ظاہر جعفر کی انگلیوں کے پرنٹس اس وقت لیے جب وہ پولیس کی حراست میں تھا۔ ملزم کے وکیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس نے ان کے موکل کی انگلیوں کے نشان قانون میں درج کیے گئے ایس او پیز کے تحت نہیں لیے۔ اسں نے کہا کہ پولیس کو جائے حادثہ سے جو پستول برآمد کیا تھا وہ لائسنس یافتہ تھا اور پولیس نے وہ پستول مقتولہ کے والد شوکت مقدم کی ملی بھگت سے کیس پراپرٹی بنایا۔
ظاہر جعفر کے وکیل کا کہنا تھا کہ پولیس نے 20 جولائی کو ان کے موکل کے گھر کو سرچ کیا اور قتل کیس میں ملوث کرنے کے لیے ظاہر جعفر کے کپڑے استعمال کیے گئے۔ وکیل نے جھوٹ کی دکان سجاتے ہوئے کہا کہ پولیس نے اس کے موکل کے فنگر پرنٹس لیکر ان کو غلط استعمال کر کرتے ہوئے قتل کیس میں ملوث کرنے کی کوشش کی۔
ظاہر جعفر کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کے آڈیو وڈیو فوٹو گرامیٹر ٹیسٹ انھیں اس مقدمے میں پھنسانے کے لیے لیا گیا۔ اسں نے دعوی کیا کہ ایس ایس پی آپریشنز مصطفی تنویر نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور میڈیا کو منشیات کے متعلق بتایا۔ اس نے یہ بھی دعوی کیا کہ دباؤ کی وجہ سے ایس ایس پی کو عہدے سے ہٹا دیا گیا اور نور مقدم سے برآمدہ منشیات کا ذکر غائب کر دیا گیا۔ ظاہر جعفر کے وکیل کا کہنا تھا کہ پراسیکیوشن اور تفتیشی نے آڈیو وڈیو فوٹو گرامیٹر ٹیسٹ میں ویڈیو میں نظر آنے والے کسی شخص کا کوئی بیان ریکارڈ نہیں کیا۔
اس نے کہا کہ پراسیکیوشن کے شواہد کے مطابق کوئی ڈی وی آر جائے وقوعہ پر نہیں تھی اور اس کے علاوہ مقتولہ کے موبائل کی ای آئی ایم آئی اور فارنزک لیب کی رپورٹ میں ای آئی ایم آئی کا نمبر مختلف ہے۔ ظاہر جعفر کے وکیل عثمان گل کا کہنا تھا کہ گرفتار ہونے کے بعد ظاہر کا موبائل فون اس مقدمے کی تفتیش کرنے والے پولیس افسر کے پاس تھا۔
اس نے پولیس کے اس دعوے کو غلط قرار دیا کہ پولیس نے ملزم ظاہر جعفر کی نشاندہی پر اس کا موبائیل فون ان سے برآمد کیا تھا۔ ظاہر جعفر کے وکیل نے دعوی کیا کہ اس مقدمے کی زیادہ تر تفتیش تھانے میں ہی بیٹھ کر کی گئی اور زیادہ برآمدگی بھی تھانے میں بیٹھ کر ہوئی۔ ظاہر جعفر کے وکیل کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے قتل کی اس واردات میں ان کے گھر کو استعمال کیا گیا اس لیے ان کے موکل اور ان کے والدین کو اس مقدمہ میں جھوٹا پھنسایا گیا۔