مینگو پیپل یعنی عام آدمی کون اور کیسا ہوتا ہے؟

پاکستانی معاشرے میں ان عام آدمی کے لیے مینگو پیپل کی اصطلاح کا استعمال اب عام ہو چکا ہے۔ لفظ مینگو پیپل دراصل عام آدمی کی کم مائیگی کے احساس کو کم کرنے کے لئے ایجاد کیا گیا ہے کیونکہ اس میں ایک انگریزی ٹچ ہے جو اس کا سٹیٹس بڑھا دیتا ہے۔ مینگو پیپل کے نمایاں خدوخال میں پتلی گردن، حلقوں سے باہر آتی آنکھیں، چہرے پر بےچارگی اور کھال میں قید ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ مینگو پیپل معاشرے میں معزز نظر آنے کے لئے ہمہ وقت چہرے پر مسکراہٹ اور آسودگی دکھانے کے جتن میں مصروف رہتے ہیں۔ تاہم برانڈڈ کپڑوں اور پرتعیش طرزِ زندگی کے باوجود آنکھوں کے گرد حلقے، بے جان مسکراہٹ، پھیکی رنگت، اور آنکھوں کی معدوم ہوتی چمک ان کے حال کا پتہ دیتی رہتی ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ آثار گزرے وقتوں کے بزرگ اور ماں باپ کو ہی زیادہ تر نظر آتے ہیں کیونکہ یہ پچھلے زمانے کے وہ لوگ ہیں جو زندہ رہنے کے لئے کمایا کرتے تھے، کمانے کے لئے نہیں زندہ رہتے تھے۔
چونکہ مینگو پیپل کی گردن پتلی سی ہوتی ہے چنانچہ ہر ہاتھ اور شکنجے میں باآسانی فٹ ہو جاتی ہے۔ پھر چاہے وہ ہاتھ کسی بااثر شخصیت کا ہو یا بھاری بھرکم نمودو نمائش کی حامل معاشرتی طبقاتی دوڑ کا یا سماجی رسم و رواج کا۔ اسکے علاوہ مہنگائی سے لیکر نت نئے ٹیکسز بھی مینگو پیپل کو اپنے شکنجے میں جکڑ کر اس نیم جان مخلوق کو مزید ادھ موا کئے رکھتے ہیں۔ لیکن مینگو پیپل کی ظاہری شخصیت پر مت جائیں، یہ معاشرہ جس میں ہم چلتے پھرتے ہیں یہ انہی کا مرہونِ منت ہے۔ یہ معیشت جو ہمارے ہاتھوں میں روپے کی صورت گھومتی رہتی ہے اسکا دارومدار بھی انہی کے کندھوں پر ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ معیشت کا پہیہ انہی مینگو پیپل کے ہاتھوں چلتا ہے۔ اگر بات کریں مینگو پیپل کی عادت واطوار اور کردارکی تو زیادہ تر اس قدر شریف النفس ہوتے ہیں کہ معاشرے کی اکائی ہوتے ہوئے بھی کسی اور کے بنائے ہوئے اصول و اطوار کو اپنانے اور بھیڑ چال کا حصہ بنے رہنے کے لئےبساط سے زیادہ چادر بنانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔
مینگو پیپل کو اگر کسی کا ڈر کسی کا احساس ہوتا ہے تو وہ صرف لوگوں کا کہ “لوگ کیا کہیں گے، کسی نے یہ کہہ دیا تو کیا ہو گا، اگر کسی نے میرے بارے میں ایسا سوچا تو کیا ہوگا؟ اس ڈر اور خوف کی زد میں مینگو پیپل نہ صرف خود بلکہ اپنی زیر سرپرستی ہر ممکنہ شخص اور رشتے کے خوابوں، خواہشات اور خیالوں کی کانٹ چھانٹ کر کے انہیں بھی اپنی ہی طرح یونیفارمڈ مینگو پیپل بنانا انکی پیدائشی و اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اپنا بھرم، سٹیٹس، رتبہ، نام اور پہچان برقرار رکھنے اور نام نہاد معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کے لئے یہ مینگو پیپل محنت اور مستقل مزاجی میں گدھے کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن پوں چوں کے شام نوں کھوتی فیر بوہڑ تھلے۔