عمران کی نااہلی اور پنجاب حکومت کے خاتمے کی پیش گوئی

سینئر صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی نے پیش گوئی کی ہے کہ نومبر تک عمران خان ممکنہ طور پر عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل ہو سکتے ہیں جسکے بعد پنجاب حکومت بھی بدل سکتی ہے۔ ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز کے لئے اپنے تازہ اداریے میں نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ اپوزیشن میں عمران خان کی مقبولیت کا گراف بلند ہے جب کہ حکومت میں مسلم لیگ ن کا گراف پست ہے۔ اگرچہ عمران نے ایسا کوئی غیر معمولی کارنامہ سرانجام نہیں دیا جو اُن کی حمایت کا پرچم بلند کرتا بلکہ فوج اور عدلیہ کے خلاف تحریک انصاف کی مہم پر اُن کے اپنے حامیوں نے بھی تنقید کی ہے۔ دراصل یہ مسلم لیگ ن کی حکومت ہے جو آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات کی وجہ سے عوامی عتاب کے نشانے پر ہے۔یہی وجہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز نے اعلانیہ طور پر شہباز شریف حکومت کی معاشی پالیسیوں سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے۔ خاتون جج کے معاملے پر حکومت کی طرف سے دھشت گردی کا پرچہ کرنے کا بھی عمران کو فائدہ ہوا ہے۔ انسداد دھشت گردی قانون جو بھی کہتا ہو لیکن عوام کی نگاہ میں یہ الزام محض انتقامی کارروائی ہے۔ ایک مقبول سابق وزیراعظم کا جذباتی عوامی جلسے کے دوران ”شرپسند“ پولیس افسران اور ”متعصب“ جج کے خلاف ”کارروائی“ کرنے کے اعلان اور نقاب پوش افراد کا کسی نظریاتی یا سیاسی جواز پر معصوم شہریوں کے درمیان خود کو دھماکے سے اُڑا لینے میں کوئی مماثلت نہیں۔
نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ عمران خان کے سیاسی عزائم کے سامنے سنگین چیلنجز کھڑے ہیں، اُن کے خلاف کم از کم پانچ اہم کیس ہیں، اور وہ ان میں سے کسی ایک میں ”ناک آؤٹ“ ہو سکتے ہیں، قطع نظر اس کے کہ اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ کا جھکاؤ ان کی طرف ہے، اور اس کی وجہ وہی ہے جس نے اُنھیں عوامی مقبولیت دی ہے۔ عمران خان پر توہین عدالت کے تین کیس ہیں جن میں الزامات کی توعیت ان سے کہیں زیادہ سنگین ہے جتنی نہال ہاشمی، طلال چوہدری اور دانیال عزیز کے کیسز میں تھی۔ ان تمام سیاست دانوں نے غیر مشروط معافی مانگی لیکن سپریم کورٹ نے پانچ سال کے لیے الیکشن لڑنے سے نااہل کر دیا، عمران کے کیس میں تو فواد چوہدری نے کہہ بھی دیا ہے کہ وہ معافی نہیں مانگیں گے، اس نے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے مشکل پیدا کر دی ہے کیونکہ اب عوام عمران کے کیسز کا پچھلے کیسز کے ساتھ موازنہ کریں گے، اور پھر عدالت کے جھکاؤ کو نوٹ کیا جائے اور اس پر بحث ہوگی۔
نجم سیٹھی بتاتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف زیر سماعت دیگر کیسز میں ایک توشہ خانہ والا ہے جس سے کی جانے والی خریداری موصوف کی ٹیکس ریٹرن میں ظاہر نہیں کی گئی، اسکے علاوہ ایک کیس الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ممنوعہ فنڈنگ میں پکڑے جانے کا ہے کیونکہ عمران کے کئی بنک اکاؤنٹس کا انکشاف ہوا ہے جن میں موصول ہونے اور نکالی جانے والی رقوم کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی تھی۔ یہاں مجرم قرار دینے کا پیمانہ نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا کیس ہو گا جس میں اُنھوں نے ایسی آمدنی اپنی ٹیکس ریٹرن میں ظاہر نہیں کی تھی جو اُنھوں نے اپنے بیٹے سے وصول ہی نہیں کی تھی۔ نجم کے بقول، عمران خان کے مسائل کے تانے بانے اُن کے اسٹیبلشمنٹ کے سابقہ حامیوں سے جا ملتے ہیں۔
عمران اپنی حکومت ختم کرنے پر ابھی تک اُنھیں ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں۔ اس نے دوطرفہ ناراضی کو تلخی میں تبدیل کردیا ہے جس میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اسی وجہ سے فوجی اسٹیبشلمنٹ کو نئے ”متبادل“ تلاش کرنا پڑے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو ماضی میں اسٹیبلشمنٹ نے چلتا کیا تھا، لیکن پھر انھوں نے اپنی تلخی ختم کر کے ایکدوسرے کو گلے سے لگا لیا۔ یہ صورت حال دھماکہ خیز انجام کی طر ف بڑھ رہی ہے۔ عمران خان فوری انتخابات چاہتے ہیں تاکہ اپنی مقبولیت سے فائدہ اٹھا لیں۔ دوسری طرف نااہلی سے بچنے کے لیے وہ ادھر اُدھر بھاگے پھر رہے ہیں۔ لیکن پی ڈی ایم حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اپنے قدموں پر کھڑی ہے۔ ایک پریشان کن معاملہ جو جذباتی کارڈ کی صورت ابھرسکتا ہے، وہ انتہائی مہنگائی ہے جس نے عوام کو معاشی طور پر بے حال کردیا ہے اور دوسرا غیر معمولی سیلاب ہیں جس کی وجہ سے وہ بے گھر اور فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔
نجم سیٹھی کے بقول ایک اور اہم کارڈ عدلیہ کے ہاتھ میں ہے جو عمران کو چلتا بھی کر سکتی ہے اور ان کی واپسی کی راہ ہموار بھی کرسکتی ہے۔ اگر نومبر میں فوج کی اعلیٰ قیادت کا تسلسل رہتا ہے یا تبدیل ہوتی ہے تو کسی نہ کسی سیاسی دھڑے کے لیے مسائل بڑھ بھی سکتے ہیں۔ اس سے صورت حال مزید پیچیدہ ہوجائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں عمران کسی نہ کسی وجہ سے گرفتار کرلیے جائیں لیکن عدلیہ اُنھیں فوراً رہا کردے گی۔ ممکن ہے کہ وہ توہین عدالت یا بدعنوانی کی پاداش میں انتخابات لڑنے سے نااہل قرار دے دیے جائیں لیکن اپیل کرنے پر اُنھیں ممکنہ طور پر حکم امتناع مل جائے گا۔ لیکن اگر عوام اقتدار کے قلعوں پر حملہ آور نہیں ہوتے تو جب تک فوجی اسٹیبلشمنٹ پی ڈی ایم کی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے، اُن کے لانگ مارچ سے کچھ نہیں ہوگا۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ مستقبل میں ہمارے سامنے بننے والا منظر کیا ہو گا؟ نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ ایک بار جب آئی ایم ایف کئی بلین ڈالرز کی کثیر جہتی اور دوطرفہ رقم سٹیٹ بینک آف پاکستان کے خزانے میں ڈال دے گا تو اسٹیبلشمنٹ کو پی ڈی ایم کی زیادہ ضرورت نہیں رہے گی۔ اگر شریف بھی نومبر میں کسی وعدے سے پیچھے ہٹتے ہیں تو امکان ہے کہ حکومت کو چلتا کیا جائے گا۔ پھر نگران بندوبست کی بساط بچھا کر باقی ضروری کام کرلیے جائیں گے۔ اس کے بعد یہ بحث شروع ہو جائے گی کہ اگلے انتخابات کب ہوں گے اور عمران اور نواز شریف کو جمہوری پچ پر کھیلنے کے لیے ایک جیسا میدان کیسے فراہم کیا جائے گا؟ درحقیقت صورت حال اتنی گھمبیر ہے کہ فوج کی اعلیٰ کمان میں تسلسل یا اس میں تبدیلی کی صورت میں کسی بھی جماعت یا رہنما کے لیے نتائج کی پیشین گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔ تسلسل تحریک انصاف کے لیے پریشانی پیدا کر سکتا ہے اور تبدیلی غیر جانبداری کا آغاز کر سکتی ہے۔ یا اس کے برعکس ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس وقت چھڑی کس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ بقول نجم، نومبر تک عمران ممکنہ طور پر نااہل ہو سکتے ہیں اور پنجاب حکومت بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔

Related Articles

Back to top button