پنجاب میں پابندی لیکن سندھ میں جوائےلینڈ کا کھڑکی توڑ بزنس

پنجاب میں صوبائی سینسر بورڈ کی پابندی کا سامنا کرنے والی ہم جنس پرستی کے موضوع پر بنائی گئی فلم جوائے لینڈ نے سندھ میں ریلیز ہوتے ہی کھڑکی توڑ بزنس کر دکھایا ہے۔

سندھ کے دونوں بڑے شہروں کراچی اور حیدرآباد میں جوائے لینڈ ہاؤس فل جارہی ہے لیکن پنجاب میں پابندی کے باعث لوگ یہ فلم دیکھنے سے محروم ہیں۔ کراچی کے سب سے بڑے ملٹی پلیکس میں افتتاحی شوز ہاؤس فل رہے اور سینما آنے والے فلم بینوں نے اسے بے حد پسند کیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر اس فلم کو سندھ کا سینسر بورڈ نمائش کے لئے کلئیر کر سکتا ہے تو پنجاب کے سینسر بورڈ کو کیا تکلیف ہے؟ یاد رہے کہ پنجاب کے عوام سینما گھروں میں فلم دیکھنے سے محروم ہیں کیونکہ صوبائی محکمہ اطلاعات و ثقافت کی جانب سے آخری وقت پر اس کی ریلیز روک دی گئی تھی۔

شعیب اورثانیہ نے اپنی طلاق کا ڈرامہ کیوں رچایا؟

جسکی وجہ دینی حلقوں کی جانب سے کیے جانے والے اعتراضات بتائے گئے ہیں۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے بھی جوائے لینڈ پر اعتراض کیا تھا کہ اس سے ہم جنس پرستی کے رجحان کو فروغ ملے گا۔ پنجاب حکومت کی جانب سے 17 نومبر کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ فلم ’اگلے احکامات تک‘ پنجاب کے سینما گھروں میں نہیں لگائی جا سکتی۔

’جوائے لینڈ‘ سے وابستہ افراد کے لیے یہ پابندی ایک دھچکے سے کم نہیں تھی کیونکہ ایک روز قبل ہی وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے قائم کردہ خصوصی کمیٹی نے فل بورڈ جائزے کے بعد فلم کو چند سین نکال کر نمائش کی اجازت دے دی تھی، اس فیصلے سے فلم دیکھنے کے خواہش مندوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی، اور سول سوسائٹی بھی اسے اپنی کامیابی مان رہی تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سال اگست میں پنجاب سینسر بورڈ نے ’جوائے لینڈ‘ کو ’عام نمائش‘ کے لیے موزوں قرار دیا تھا، جبکہ سندھ سنسر بورڈ نے اسے ’اے‘ سرٹیفکیٹ دیا تھا، جس کا مطلب یہ تھا کہ فلم صرف بالغوں کے لیے ہے تاہم پنجاب حکومت کی جانب سے فلم کے معاون پروڈیوسر سرمد سلطان کھوسٹ کو جاری کیا جانے والا نوٹیفکیشن بہت غیر متوقع تھا۔

دوسری جانب وزیر ثقافت پنجاب ملک تیمور مسعود کا کہنا ہے کہ ہم جوائے لینڈ کا دوبارہ جائزہ لینے جا رہے ہیں، ظاہر ہے، ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ اس میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے ہمارے معاشرے پر منفی اثر پڑے۔ یاد رہے کہ ’جوائے لینڈ‘ لاہور کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے شادی شدہ نوجوان حیدر کی کہانی ہے، جو ایک ڈانس تھیٹر میں شامل ہوتا ہے اور بیبا نامی ایک ٹرانس جینڈر سے محبت کر بیٹھتا ہے۔

راشد خواجہ کے مطابق جن لوگوں نے فلم دیکھی ہے اُن کو اس میں کوئی معیوب بات نظر نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی طور پر تینوں سینسر بورڈز نے بھی اسے بغیر کاٹے پاس کر دیا تھا۔ دوسری طرف حکومت پنجاب کی جانب سے اس فلم پر پابندی کی مذمت بڑھنے لگی ہے۔ ملالہ یوسفزئی نے بھی فلم کے حق میں آواز بلند کی ہے، یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے جوائے لینڈ نامی فلم سے چند الفاظ اور مناظر نکال کر اسے ریلیز کرنے کی اجازت دے دی تھی۔

جب ملک تیمور مسعود سے پوچھا گیا کہ پنجاب نے بھی ایسا راستہ کیوں نہیں اپنایا تو وہ بولے ’ہم فلم کو دوبارہ ریویو کرنے جا رہے ہیں جس کے بعد دیکھیں گے کہ اس کو ریلیز کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک ہائی پروفائل کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے۔

ناقدین کہتے ہیں کہ پنجاب میں بھی تحریک انصاف کی حکومت ہے اور خیبر پختونخوا میں بھی لیکن جوائے لینڈ کو پنجاب میں ریلیز کی اجازت نہیں ملی جبکہ خیبرپختونخوا میں فلم ریلیز ہوچکی۔ سابقہ فلم پروڈیوسر اور سینسر بورڈ کے رکن راشد خواجہ کے خیال میں اس کے پیچھے سیاسی محرکات ہو سکتے ہیں انھوں نے کہا کہ ’چونکہ وفاقی حکومت نے فلم کی اجازت دی، شاید اس لیے پنجاب حکومت نے اسے روک دیا، اس کا تعلق ’سیاسی پوائنٹ سکورنگ‘ سے بھی ہو سکتا ہے کیونکہ فلم کی ریلیز روک کر پی ٹی آئی کی قیادت یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ وہ ایک حساس معاملے پر عوامی جذبات کو مجروح ہونے سے بچا رہی ہے۔

Related Articles

Back to top button