اسٹیبلشمنٹ کے بغیر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکتی

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار امتیاز عالم نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانا آسان نہیں اور اس کی کامیابی کا اختیار انہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو ہمیشہ سے ایسے فیصلے کرتے آئے ہیں۔ انکا کہنا یے کہ وزیر اعظم کا اسٹیبلشمنٹ سے تنازع نیا نہیں ہے جس کے نتیجے میں بالآخر وزیراعظم کو ماضی کی طرح سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں امتیاز عالم کہتے ہیں کہ ایک اور کٹھ پُتلی تماشہ لگنے جارہا ہے، لگتا ہے کہ آصف زرداری نے جو پتا کھیلا تھا کہ پہلے عمران خان کو ہٹائو تو پھر بات ہوگی، کو کم از کم پی ڈی ایم کی جماعتوں نے ادے تھام لیا ہے اور اس کھیل میں اپوزیشن کی اُمیدوں کا مرکز تحریکِ انصاف کے ممکنہ منحرفین اور اس کی اتحادی جماعتیں ہیں۔

حکومت کی ایک اہم اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کا کہنا ہے کہ اُنہیں اب ’’اشارے‘‘ ملنا بند ہو گئے ہیں اور انہیں اپنی جنگ خود لڑنے کی ’’آزادی‘‘ مل گئی ہے۔ امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ جس اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمٰن اور مریم نواز ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کے تحت مزاحمت پر کاربند تھے، اُسے اب عدم اعتماد کے ووٹ کیلئے پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔ اب اداروں سے شفقت بھری ’’غیر جانبداری‘‘ کی اُمیدیں باندھ کر پی ڈی ایم خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن اور شہباز شریف۔دراصل آصف زرداری کی سجھائی راہ پہ چل نکلے ہیں۔

حکومتی اتحادی پارٹیاں، مسلم لیگ ق، اور ایم کیو ایم پاکستان، ہوا کے بدلتے رُخ کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں، اصل بے چینی تحریک انصاف کے دو تین درجن اراکین قومی اسمبلی اور پنجاب کے کئی درجن پی ٹی آئی کے اراکین صوبائی اسمبلی کی ہے جو پارٹی کی تیزی سے کھوتی ہوئی ساکھ کا بوجھ شاید زیادہ دیر تک اُٹھانے کیلئے تیار نہیں ہیں اور ان کی خوفزدہ نگاہیں 2023ء کے عام انتخابات کے انتظار میں منجمد رہنے کو تیار نہیں ہیں۔

لگتا یوں ہے کہ نواز لیگ میں ہائوس فل ہونے کے باعث یا تو پنجاب میں تحریکِ انصاف کے بطن سے باپ ٹائپ کی کوئی پارٹی جنم لے گی یا پھر پیپلزپارٹی کے پنجاب کے خالی دامن میں انکے لیے جگہ ہی جگہ ہوگی۔ گجرات کے چوہدریوں کی ملنساری پنجاب میں ایک متبادل عارضی بندوبست کا اہتمام کرنے میں کارآمد ہوسکتی ہے، لیکن ایم کیو ایم والے تحریک انصاف کے کراچی سے انخلا پر جس حصے کی اُمید کر رہے ہیں وہ پیپلزپارٹی کے ہوتے ہوئے پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ رہی بلوچستان کی باپ پارٹی تو وہ اپنے باپ کے اشارے پہ اپنا قبلہ کبھی بھی بدل سکتی ہے۔

امتیاز عالم کہتے ہیں کہ اگر عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی ہے تو ایسی حکومت جس کی کارکردگی پر انہوں نے خود عدم اعتماد کردیا ہے، جاتی ہے تو جائے، خان صاحب کی بلا سے۔ جو ساڑھے تین برس کی نالائقیوں اور ناکامیوں کا ملبہ ان کے سر پہ پڑا ہے وہ کسی اور کے سر منڈھا جاتا ہے تو سیاسی طور پر ایسا عمران کیلئے باعثِ طمانیت ہوگا اور وہ زیادہ خطرناک نہ بھی بنے تو چھوٹے موٹے خطرات تو پیدا کر ہی سکیں گے۔

کپتان حکومت کی شہباز کو گرفتار کرنے کی کوششیں تیز

عدم اعتماد کا ووٹ لانا حزبِ اختلاف کا آئینی و جمہوری حق ہے اور ایک سلیکٹڈ حکومت کو گھر بھیجنے کا اخلاقی جواز بھی بنتا ہے لیکن سارے کے سارے آئینی و جمہوری اور اخلاقی جواز کی بنیاد اگر تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے اراکینِ اسمبلی کے غیر آئینی و غیر اخلاقی انحراف پر رکھی جائے گی تو اس کے پلے آئینی و اخلاقی معنوں میں کچھ بھی نہیں بچے گا۔

بقول امتیاز عالم، اگر عمران حکومت کے اتحادی ٹوٹ کر علیحدہ ہوتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے لیکن سوال یہنیے کہ پنجاب میں ن لیگ، گجرات کے چوہدریوں کو اور سندھ میں پیپلزپارٹی ایم کیو ایم پاکستان کو کہاں تک خوش کر پائے گی، یہ بذاتِ خود ایک گھمبیر معاملہ ہے۔

سوال یہ بھینیے کہ اگر ان جماعتوں کے معاملات طے بھی ہوجاتے ہیں تو عمران حکومت کے مقابلے میں متبادل حکومت اور کارگر متبادل ایجنڈا اور منصوبہ کیا ہے جو موجودہ بحران کا قابلِ عمل اور موثر علاج کرپائے؟ اس عبوری دور کے عبوری انتظام کا کیا لمیٹڈ مینڈیٹ ہوگا؟ اگر تو عمران حکومت کو فارغ کر کے، فوری انتخابات کا انعقاد بنیادی مقصد ہے تو اس کا آسان ترین راستہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کو چھوڑنے کے لیے ،جو اراکین اسمبلی اتنے بے چین ہیں، وہ اپنی نشستوں سے مستعفی ہوجائیں جو کہ اُن کا جمہوری حق ہے۔

یوں وزیر اعظم عمران خان اکثریت کھو بیٹھیں گے اور نئے انتخابات کروانے پڑیں گے۔ لیکن ابھی ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا اور اپوزیشن نمبر گیم کا غیر اخلاقی بوجھ اُٹھا کر کسی صورت جمہوری عمل کو آگے نہیں بڑھا پائے گی۔ سیاسی بحران کا ایسا سلسلہ چل نکلے گا کہ سیاستدانوں کے پلے کچھ نہیں رہے گا۔

امتیاز کہتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان پہلے ہی اپنی کابینہ کے اراکین کی کارکردگی کے حوالے سے بڑی بھاری اکثریت کو فیل قرار دے چکے ہیں اور جو دس حسنِ کارکردگی کے تمغہ کے حقدار ٹھہرے بھی ہیں تو اس میں مضحکہ خیز طور پر اول آئے بھی ہیں تو وزیر مواصلات مراد سعید۔ انکا کہنا ہے کہ دراصل ہائبرڈ نظام اپنے اندرونی تضادات کے باعث ایک طرح کی اندرونی کھلبلی کی لپیٹ میں ہے۔

فریقین اپنی اپنی گیم میں مصروف ہیں۔ عدم اعتماد کے ووٹ کا معاملہ بھی وزیر اعظم عمران خان کو چیک کرنے کیلئے سامنے آیا ہے اور اپوزیشن اپنی ضرورتوں کے باعث اس کھیل میں کود گئی ہے جو جمہوری ٹرانزیشن کے ہائبرڈ نظام سے آئینی و جمہوری نظام کی جانب سفر کے لیے تباہ کن ہے۔ اب اس حقیقت کا کھلے عام اعتراف کیا جارہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے سیاست میں ملوث رہتی ہے اور اس کے ساتھ مل کر ہی سیاست کی جا سکتی ہے۔

ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ عمران خان اپنا کلہ مضبوط کرنے کیلئے اپنے صوابدیدی اختیار استعمال کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کے سربراہ اور اُن کا ادارہ اپنی اور آگے کی فکر میں ہیں۔ اپوزیشن اس کھیل میں کود چکی ہے اور عمران خان بھی ڈٹ گئے ہیں۔ اگرچہ زمین وزیر اعظم کے پائوں تلے سے کھسک رہی ہے، لیکن وہ اتنے بااختیار ہیں کہ کوئی بھی بڑا قدم اٹھا سکتے ہیں جسکا انہیں خمیازہ بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

امتیاز عالم کہتے ہیں کہ وزرائے اعظم اور اسٹیبلشمنٹ میں کشمکش کا یہ نظارہ ہم کئی بار کرچکے ہیں۔ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کامیاب کرانا آسان نہیں، سوائے ان کے جن کے ہاتھ میں فیصلہ کن ووٹوں کی پتوار ہے۔ لہذا اس وقت پاکستان عظیم اندرونی بحران کی لپیٹ میں ہے اور غیر پائیدار بنیادوں پر کھڑا ہے۔ اسے نئے ویژنری لیڈرز اور عوامی کایا پلٹ کی ضرورت ہے۔ وگرنہ مملکتِ خداداد یونہی اپنے تضادات میں پھنسی رہے گی۔

Related Articles

Back to top button