توہین عدالت میں عمران کا بچ نکلنا مشکل ٹاسک کیوں ہے؟


سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کنور محمد دلشاد نے کہا ہے کہ خاتون جج کو دھمکیاں دینے والے عمران خان کا توہین عدالت کیس میں بچ نکلنا ایک مشکل ٹاسک نظر آتا ہے کیونکہ کیس کا فیصلہ کرتے وقت اسلام آباد ہائی کورٹ کو ماضی میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ کنور دکشاد کا کہنا ہے کہ ماضی میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے توہین عدالت کا سخت ترین معیار قائم کر رکھا تھا جس کی خلاف ورزی پر مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنماؤں کو نا اہلی سمیت قید کی سزائیں بھی مل چکی ہیں۔ سزا پانے والوں میں سابق سینیٹر نہال ہاشمی، دانیال عزیز چودھری اور طلال چودھری شامل تھے۔ کنور دلشاد نے یاد دلایا کہ نہال ہاشمی کو توہین عدالت پر نہ صرف عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا تھا بلکہ انھیں تین مہینے کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ ایسے میں جب اسلام آباد ہائی کورٹ عمران خان کی توہین عدالت کیس کا فیصلہ کرے گی تو اس کے لئے سابق وزیراعظم کو ریلیف دینا آسان نہیں ہوگا۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کنور محمد دلشاد کہتے ہیں کہ ماضی میں نواز لیگ کا عدلیہ مخالف بیانیہ اس کے فوج مخالف بیانیے کی طرح کافی مقبول رہا ہے۔ لیکن اگر دیکھا جائےتو سیاسی جماعتوں کے لیے عدلیہ کی حمایت اور مخالفت موسم کی تبدیلی کی طرح ہوتی ہے۔ جب نومبر 2011ء میں آئی ایس آئی چیف احمد شجاع پاشا کے ایماء پر آصف زرداری حکومت کے خلاف میمو گیٹ سکینڈل منظر عام پر لایا گیا تو تب کی اپوزیشن قیادت بشمول تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون نے اپنی تمام تر امیدیں سپریم کورٹ سے وابستہ کر لی تھیں۔ پھر انہی دو جماعتوں نے یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کے لیے سپریم کورٹ میں کیس دائر کیا اور اپنا اور اسٹیبلشمنٹ کا مشترکہ ایجنڈا پورا کروا لیا۔ لیکن پھر وقت بدلا اور اسی تحریک انصاف نے مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف کو پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل کروا دیا۔ اب لگتا ہے کہ عمران خان کے اپنی باری بھی آ چکی ہے۔ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کی زد میں آ کر اقتدار سے محروم ہونے سے پہلے اور بعد میں فوج کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ پر بھی تنقید کی ہے اور الزامات عائد کیے ہیں۔ جو عدالت انہیں ریلیف دے اس کی تعریف کرتے ہیں اور جس عدالت پر انھیں شک پڑ جائے کہ انکے خلاف فیصلہ دے گی، اس کا رگڑا نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔

پچھلے کئی برسوں سے فارن فنڈنگ کیس سننے اور پھر اس کا فیصلہ سنانے والا الیکشن کمیشن اور اس کا سربراہ سکندر سلطان راجہ بھی عمران خان کی بندوق کے نشانے پر ہے۔ بار بار کی زبان درازیوں کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے توہین عدالت کے الزام کا سامنا کرنے والے عمران خان اب بھی اپنی روش پر قائم ہیں۔

کنور محمد دلشاد کے بقول خان صاحب کے خلاف الیکشن کمیشن کا توہین عدالت کیس اہم مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جبکہ دوسری جانب عمران کے آئینی مشورہ نویس انہیں بے فکر ہونے کوکہہ رہے ہیں۔ یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو کو بھی ان کے آئینی ماہرین نے یہ باور کرا رکھا تھا کہ مولوی مشتاق حسین انکاکچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ لیکن پھر مسٹر بھٹو تخت دار تک پہنچ گئے۔ دوسری طرف خاتون جج کے دھمکی کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات خارج کرنے کا حکم تو دے دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اطہر من اللہ انہیں توہین عدالت کے الزام سے کیسے بچائیں گے خصوصاً جب وہ خود یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ماضی کے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے دیئے گئے فیصلے ہیں جن میں توہین کرنے والوں کو سزا سنائی گئی تھی۔

Related Articles

Back to top button