عمران اپنا تھوکا ہوا چاٹنے کے لیے بے چین کیوں ہیں؟

اپریل 2022 میں اپنی برطرفی اور شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے والے تحریک انصاف کے بچے کھچے 44 اراکین اسمبلی اب اپنے استعفے واپس لینے کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں اور منت ترلوں پر اتر آئے ہیں لیکن سپیکر قومی اسمبلی دستیاب نہیں جنہوں نے ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔ ایسے میں ثابت ہوا کہ قومی اسمبلی سے استعفے دے کر عمران خان نے اپنی سیاسی زندگی کا غلط ترین فیصلہ کیا تھا اور اسی لیے انہیں اپنا تھوکا ہوا چاٹنا پڑ رہا ہے۔

یاد رہے کہ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے تحریک انصاف کے 81 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے قبول کیے جانے کے بعد اب عمران خان نے اپنے بقیہ 44 ارکان کے استعفے واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ باغی ہو جانے والے راجہ ریاض کی جگہ اپنا اپوزیشن لیڈر منتخب کروایا جا سکے اور اگر صدر علوی کی جانب سے شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہا جائے تو ان کے لیے مشکلات پیدا کی جا سکیں۔ لیکن عمران خان کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی چونکہ مستعفی اراکین اسمبلی راجہ پرویزاشرف کی تلاش میں ہیں اور وہ منظر سے غائب ہیں۔ عمران خان کو یہ خدشہ ہے کہ راجہ پرویز اشرف انکے باقی اراکین اسمبلی کے استعفے بھی منظور کر لیں گے اس لئے 23 جنوری کی صبح پی ٹی آئی کے بچے کھچے 44 اراکین اسمبلی قومی اسمبلی کے باہر پہنچ گئے اور اپنے استعفے واپس لینے کا اعلان کر دیا۔ تاہم جب انہوں نے اسمبلی میں داخل ہونے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ اسے تو چار روز کے لئے بند کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی نے الیکشن کمیشن کا رخ کیا اور چیف الیکشن کمشنر سے مطالبہ کیا کہ اگر راجہ پرویز اشرف انکے استعفے منظور کریں تو اس فیصلے کو تسلیم نہ کیا جائے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ  سپیکر قومی اسمبلی اگر مزید 28 ارکان اسمبلی یا اس سے زائد کے استعفے منظور کرلیں تو راجہ ریاض گروپ کے اراکین کی تعداد بڑھ جائے گی اور انہی کا اپوزیشن لیڈر برقرار رہے گا۔ اس وقت قومی اسمبلی میں راجہ ریاض 20 اراکین کے ساتھ اپوزیشن لیڈر ہیں۔ چنانچہ اگر سپیکر قومی اسمبلی تحریک انصاف کے بچے کھچے 44 اراکین قومی اسمبلی میں سے 28 کے استعفے قبول کر لیتے ہیں تو عمران خان کی قومی اسمبلی میں اپنا اپوزیشن لیڈر بنوانے کی کوشش ناکام ہو جائے گی۔ قومی اسمبلی کے رولز کے مطابق اپوزیشن لیڈر ایوان میں اپوزیشن بینچز پر موجود اکثریت جماعت نامزد کرتی ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے تحریک انصاف کے مزید اراکین قومی اسمبلی کے استعفے قبول کئے جانے کا بھی قوی امکان ہے اور اسی لئے اب عمران خان کے ساتھی رونا دھونا کرتے ہوئے راجہ پرویز اشرف کی تلاش میں ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ثابت ہو گیا کہ عمران خان نے قومی اسمبلی سے استعفے دے کر ایک سنگین غلطی کی۔ اب جب استعفے قبول کئے جارہے ہیں تو موصوف نے تڑپنا شروع کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی سیکریٹری جنرل اسد عمر نے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں کہا کہ کیونکہ سپیکر قومی اسمبلی ابھی تک ہمارے تمام اسمبلی ارکان کے استعفے قبول نہیں کر رہے، اس لیے پارٹی چیئرمین عمران خان کی ہدایات کے مطابق 44 ارکان اسمبلی نے اپنے استعفے واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسد عمر نے بتایا کہ اس سلسلے میں اپنی درخواست اسپیکر قومی اسمبلی کو ای میل کردی ہے، پی ٹی آئی کا اگلا قدم اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی ہوگا۔ فواد چوہدری نے بھی ٹوئٹر پر فیصلے سے متعلق کہا کہ تحریک انصاف کے 44 اراکین اسمبلی نے سپیکر قومی اسمبلی سے لیڈر آف اپوزیشن اور پارلیمانی پارٹی کے عہدے تحریک انصاف کو دینے کے لیے استعفے واپس لیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد جعلی اپوزیشن لیڈر سے جان چھڑانا اور اعتماد کے ووٹ میں لوٹوں کو شہباز شریف کو ووٹ دینے سے روکنا ہے۔

23 جنوری کو  تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی پارلیمنٹ کے بعد سپیکر ہاؤس پہنچے جہاں انہوں نے داخلے کی اجازت نہ ملنے پر احتجاج کرتے ہوئے دھرنا دیا اور پھر وہ الیکشن کمیشن آفس کے سامنے پہنچے۔اس موقع پر سکیورٹی حکام نے الیکشن کمیشن کے مرکزی دروازے کو خاردار تاریں لگا کہ بند کردیا، الیکشن کمیشن کے مرکزی دروازے پر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔پی ٹی آئی رہنما عامر ڈوگر اور ریاض فتیانہ پر مشتمل 2 رکنی بینچ کو الیکشن کمیشن کے اندر جانے کی اجازت دی گئی جہاں انہوں نے پی ٹی آئی اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو درخواست دی۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہم 45 اراکین قومی اسمبلی اپنی درخواست واپس لے رہے ہیں، اسپیکر اور قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو استعفے واپس لینے سے متعلق آگاہ کردیا ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپیکر اگر ہمارے استعفے منظور کرتے ہیں تو ہمیں ڈی نوٹیفائی نہ کیا جائے۔ ایسے میں اب دیکھنا یہ ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی عمران خان کو اپنا تھوکا ہوا چاٹنے کی اجازت دیں گےیانہیں؟

سلیمان شہباز نے محسن نقوی کو اپ رائٹ آدمی قرار دیدیا

Related Articles

Back to top button