جمہوریت کی علمبردارعاصمہ جہانگیر کی کہانی

جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی داعی عاصمہ جہانگیر نے اس مقولے پر اپنی آخری سانس تک عمل کیا۔ انھوں نے ملاؤں، فوج، ججوں، سیاست دانوں، اور ہر طاقتور کے سامنے کلمہ حق ادا کیا اور ہمیشہ پسے ہوئے طبقوں کا دفاع کیا۔ اپنے اس مشن کے دوران عاصمہ جہانگیر نے بے شمار دھمکیوں اور حملوں کا سامنا بھی کیا لیکن وہ نہ تو کبھی گھبرائیں اور نہ ہی پیچھے ہٹیں۔11فروری 2018 کو کینسر کی ہاتھوں شکست کھا جانے والی عاصمہ جہانگیر اپنے پیچھے مزاحمت کی ایک ایسی شاندار روایت چھوڑ گئیں کہ جو آج بھی لوگوں کو آمریت، سماجی ناانصافی اورظلم وبربریت کے خلاف آواز بلند کرنے اور جم کر لڑنے کا حوصلہ بخشتی ہے۔

جو لوگ عاصمہ جہانگیر کی جدوجہد کو سمجھنا چاہتے ہیں وہ 60 کی دہائی کا تصور کریں۔ ملک میں جنرل ایوب خان کا مارشل لا نافذ ہے۔ جمہوریت کی بحالی کی تحریک چل رہی ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح اس کی قیادت کررہی ہیں۔ عوامی لیگ کو غدار قرار دیا جاچکا ہے، ایسے میں ایک شخص ہے جو کہ اشرافیہ کے طبقے سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس کے دل میں غریبوں کا درد ہے، اس کا نام ملک غلام جیلانی ہے۔ وہ لاہور میں رہتا ہے اور مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام اسے اتنے ہی محبوب ہیں جتنے پنجابی یا پشتون۔ وہ فوجی ایکشن میں بنگالیوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر آواز حق بلند کرتا ہے اور بنگالیوں کے جمہوری اور شہری حقوق کے لیے پلے کارڈ اٹھا کر تنہا لاہور شہر کے ایک چوک میں جا کھڑا ہوتا ہے۔ لوگ اس تنہا آدمی پر آوازے کستے ہیں، اسے غدارکہتے ہیں۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس نے 1958 کی فوجی آمریت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے اعلیٰ عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور عوامی لیگ کے شیخ مجیب کی گرفتاری اور اس وقت کے مشرقی پاکستان میں ہونے والی خونیں داستانِ ستم کے خلاف آواز بلند کی تھی، پھر وہ جیل جاتا ہے۔

اس بہادر آدمی کی باشعور اور نوعمر بیٹی یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ باپ نے اسے شہری آزادی کا اور جمہوری جدوجہد کا سبق گھر پر پڑھایا ہے۔ بیٹی دیکھ رہی ہے کہ کس طرح اس کے گھر پر قاتلانہ حملہ ہوتا ہے۔ ہدف اس کا باپ ہے لیکن اس حملے میں ایک صحافی جان سے گزر جاتا ہے جو ملک غلام جیلانی سے ملاقات کے لیے آیا تھا۔ بیٹی باپ کو جیل جاتے اور جیل سے آتے دیکھتی ہے اور اس کا دل پارہ پارہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے باپ کی رہائی چاہتی ہے۔ ایک وکیل ملک غلام جیلانی کی رہائی کے لیے کاغذات تیار کرتا ہے تو عاصمہ اسے بتاتی ہے کہ اس کی ماں کاغذات پر دستخط کے لیے موجود نہیں، وہ اس لڑکی کو دیکھتا ہے۔ اس کی عمر پوچھتا ہے اور جب وہ اسے بتاتی ہے کہ میری عمر 18 برس ہے تو وہ اسے کہتا ہے کہ اماں کے پاس ان کاغذات کو لے جانے کی ضرورت نہیں، تم بھی اس پر دستخط کرسکتی ہو۔ وہ وکالت نامے پر دستخط کر دیتی ہے اور یہیں سے وہ لڑکی پاکستانی آسمان پر طلوع ہوتی ہے جو باپ کی آزادی کا مقدمہ لڑنے گئی تھی اور پاکستانی عوام اور دنیا کے مظلوموں کے حقوق کی وکیل بن گئی۔

عاصمہ جیلانی کیس پاکستان کی تاریخ میں مارشل لاء جرنیلوں کے خلاف ایک مثال بن گیا۔ عاصمہ نے کنیرڈ کالج سے بی اے کیا اور پھر وکالت پڑھنے میں جُٹ گئی۔ اس کا پہلا معرکہ 1969 میں پنجاب میں گورنر ہائوس کے دروازے پر ہوا جہاں وہ ایک احتجاجی جلوس لے کر گئی تھی۔ 1983 میں جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں اس نے ان شرعی قوانین کے خلاف آواز بلند کی جو اسلام کے نام پر عورتوں کے حقوق غصب کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ وہ کبھی گھر میں نظر بند کی گئی، کبھی جیل بھیجی گئی۔ لیکن وہ گھبرائی نہیں اور اس نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اس کی بہن حنا جیلانی نے اس ادارے کو بنانے میں اپنی بہن کا بھرپور ساتھ دیا۔جان ہتھیلی پر رکھ کر عاصمہ، حنا، آئی اے رحمان، اور عزیز صدیقی وغیرہ نے پاکستان میں انسانی حقوق، عورتوں، بچوں اور ہماری کچلی ہوئی اقلیتوں کے حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔ سر ہتھیلی پر رکھنا عاصمہ اور حنا کے لیے محاورہ نہیں حقیقت تھی۔ ایک نوجوان لڑکی سمیعہ سرور جو ان کے ادارے میں پناہ لیے ہوئے تھی، وہ حنا کی موجودگی میں اپنی ماں کے ہاتھوں قتل ہوئی اور اس کا گرم نوجوان لہو حنا اور عاصمہ کے دفتر میں بہا۔

عاصمہ نے جمہوری جدوجہد کا سبق 1972 میں اپنے والدکے مقدمے کے دوران پڑھا۔ بیرسٹر منظور قادر، ملک غلام جیلانی کا مقدمہ لڑرہے تھے۔ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے بتایا تھا کہ ہمارے گھر میں ہر وقت بنیادی حقوق اور بالغ حق رائے دہی کے بارے میں باتیں ہوتی تھیں، اس وقت ہم بچے تھے۔ میں نہیں جانتی تھی کہ بالغ حق رائے دہی کس چڑیا کا نام ہے۔ میں تو صرف یہ جانتی تھی کہ میرے والد اس کے لیے لڑ رہے ہیں۔ امی کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ابا جب گرفتار ہوتے اور جیل جاتے تو وہ کار بیچ دیتیں اور ہم لوگ تانگے میں سفر شروع کر دیتے۔ ہمارا گھر کرائے پر چڑھا دیا جاتا اور ہم اپنے نانا مولانا صلاح الدین کے گھر چلے جاتے۔ عاصمہ نے اس نوجوان سے عشق کیا جس کے گھرکی دیوار ان کے گھر سے ملی ہوئی تھی۔ عشق کامیاب ہوا اور وہ سسرال اور میکے کا لطف اکٹھے اٹھاتی رہیں۔ تین بچوں کی ماں بنیں لیکن عوام سے اور غریب طبقات سے ان کا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹا۔ 1983 میں ضیاالحق کے دور میں انھیں جیل ہوئی۔ 2007 میں وہ گھر میں نظر بند بھی کی گئیں۔

عاصمہ نے پاکستانی اقلیتوں، غریب اور بے آسرا عورتوں، بھٹہ مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کا مقدمہ ہمہ وقت لڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ انصاف ہمارے یہاں ایک نادرونایاب شے ہے۔ انھوں نے ججوں کی بحالی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن اپنے آخری دنوں میں عدلیہ کے غلامانہ کردار پر کڑھتی بھی رہیں۔ اپنی موت سے چند دن پہلے سپریم کورٹ میں ان کے دلائل کی گونج ہر طرف سنائی دی۔ 1983 میں ویمن ایکشن فورم کی تشکیل میں ان کا بنیادی کردار تھا۔ شہلا ضیا، نگار احمد، روبینہ سہگل، نیلم حسین، فریدہ شہید، لالہ رخ، نگہت سعید خان اور دوسری خواتین کے ساتھ مل کر انھوں نے جنرل ضیاء کے بنائے ہوئے سیاہ قوانین کے خلاف جم کر لڑائی لڑی۔

عاصمہ جہانگیر تو اپنا جدوجہد سے بھرپور سفر مکمل کرکے اگلے جہاں چلی گئیں، لیکن ان کے اور ہم سب کے بہت سارے خواب ابھی تک ادھورے ہیں، جنہیں پورا کرنے کے لیے عاصمہ کی جدو جہد کو آگے بڑھانا ضروری ہے۔ ان کے یہ الفاظ آج بھی ہمارے کانوں میں گونجتے ہیں کہ ’’آپ کی گولیاں ختم ہو جائیں گی، لیکن ہمارا یہ سفر ختم نہیں ہوگا”۔ عاصمہ جیسے ہی لوگوں کے لیے کہا گیا ہے کہ ’’ہم نہ ہوں گے تو کوئی ہم سا ہوگا‘‘۔

Related Articles

Back to top button