دعا زہرا بوائے فرینڈ کے ساتھ کراچی سے لاہور پہنچی تھی


کراچی میں گھر سے فرار ہونے والی دعا زہرہ اغوا کیس کی تفتیش کرنے والے پولیس افسران کا یہ دعویٰ سچا ثابت ہوتا نظر آتا ہے کہ لڑکی خود سے لاہور نہیں پہنچی تھی بلکہ اس کا بوائے فرینڈ ظہیر احمد اسے کراچی سے لاہور لے کر گیا تھا۔ دعا زہرہ اغوا کیس کے تفتیشی افسر نے ایڈیشنل سیشن جج کے پاس جمع کرائی گئی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ کراچی سے جب دعا زہرہ کو اغوا کیا گیا تب ظہیر شہر میں موجود تھا۔ خیال رہے کہ اس سے قبل دعا زہرہ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ خود کراچی سے ٹیکسی میں سوار ہو کر لاہور پہنچی تھیں جبکہ ظہیر کا کہنا تھا کہ وہ دعا کے اس اقدام سے لاعلم تھے اور لاہور پہنچ کر ہی دعا نے ان کو فون کیا تھا۔

عدالت میں جمع کرائی گئی تحریری رپورٹ میں تفتیشی افسر نے موبائل فون نمبر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ ظہیر احمد کے نام پر رجسٹرڈ ہے اور واقعے والے دن اس کی لوکیشن کراچی میں ہی پائی گئی ہے۔ پولیس نے ملزمان کے خلاف زیر دفعہ 363 اور کم عمری کی شادی کی روک تھام کے قانون کی دفعات شامل کرنے کی اجازت طلب کرلی ہے۔ اس مقدمے میں 33 ملزمان نامزد ہیں جن میں ظہیر کی والدہ نور بی بی سمیت آٹھ خواتین بھی شامل ہیں۔ تفتیشی پولیس کی رپورٹ کے مطابق دعا زہرہ کی پنجاب سے بازیابی کے لیے محکمہ سندھ سے اجازت طلب کی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ اس مقدمے میں نکاح خواں اور گواہ پہلے ہی گرفتار ہیں، جبکہ دعا کاظمی کے والد مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر ظہیر احمد کی گرفتاری اور تفتیش کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔دعا کے والد کی جانب سے تفتیشی افسر کی تبدیلی کے لیے بھی عدالت میں درخواست دائر کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ چند روز پہلے مقامی عدالت نے قرار دیا تھا کہ نکاح رجسٹرار اور متعلقہ افراد کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ نکاح سے متعلقہ شناختی دستاویزات کی چھان بین کریں کیونکہ عمر سے متعلق محض زبانی طور پر بتانا قابل قبول نہیں۔ کراچی کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے گذشتہ ہفتے دعا زہرہ کیس میں مختصر فیصلہ سُنا کر نکاح خواں غلام مصطفیٰ اور گواہ علی اصغر کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی اور پھر بدھ کے روز اس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں نکاح کے لیے مطلوبہ دستاویزات اور نکاح رجسٹرار کے کردار پر بحث کی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تمام نکاح رجسٹرار اور وہ افراد جو شادی میں بطور گواہ شرکت کرتے ہیں اُن کے لیے لازمی ہے کہ وہ تمام دستاویزیات کی چھان بین کریں، زبانی طور پر عمر بتانا اس وقت تک قابل قبول نہیں جب تک بطور ثبوت کوئی دستاویزات فراہم نہیں کی جاتیں۔

عدالت کے مطابق عمر کی یہ دستاویز قومی رجسٹریشن اتھارٹی یعنی نادرا کا شناختی کارڈ، بی فارم، سکول چھوڑنے کا سرٹیفیکیٹ، یونین کونسل کا پیدائشی سرٹیفیکیٹ یا عمر کا تعین کرنے والی اتھارٹی سے جاری کردہ سرٹیفیکیٹ قابل قبول ہو سکتا ہے۔ عدالت نے دونوں ملزمان کی ضمانت کی درخواست مسترد کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نکاح خواں حافظ غلام مصطفیٰ نے دستاویزات کی تصدیق نہیں کی اور جبکہ نکاح کے گواہ اصغر علی کی کوئی ساکھ نہیں۔

عدالت نے کہا کہ سنگین جرم مغویہ کی نفسیات کو تباہ کر سکتا ہے، اس کے باعث مغویہ کے خاندان کو عوام کے سامنے شرمندگی کا سامنا ہوتا ہے، یہ ایک بد نما داغ ہے جس کا سامنا خاندان والوں کو کرنا پڑ سکتا ہے جو کہ سنگین جرم ہے لہذا اس قسم کا گھناؤنا جرم کسی انفرادی شخص کے خلاف نہیں ہے بلکہ پورے معاشرے کے خلاف ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل پولیس نے دعا زہرہ اغوا کیس میں پیش کیے گئے چالان میں گرفتار ملزمان غلام مصطفیٰ اور اصغر کو بے گناہ قرار دیا ہے اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ انھیں رہا کرنے کا حکم دیا جائے۔ اس سے قبل دعا زہرہ اغوا کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے دعا کے مبینہ شوہر اور ملزم ظہیر احمد کی حفاظتی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کی گرفتاری 14 جولائی تک کے لیے روک دی تھی۔

حال ہی میں میڈیکل بورڈ کی جانب سے دعا زہرہ کی عمر کے تعین کے بعد ان کے والد نے کراچی کی مقامی عدالت سے ایک بار پھر اپنی بیٹی کی بازیابی کے لیے درخواست دی تھی جس میں سندھ پولیس کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔ ادھر دعا کا مبینہ شوہر اور ملزم ظہیر احمد کی جانب سے ممکنہ گرفتاری کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا جہاں دورانِ سماعت عدالت نے سوال کیا تھا کہ ایف آئی آر کب درج ہوئی۔ عدالت کو بتایا گیا تھا کہ اغوا کا مقدمہ 16 اپریل کو درج ہوا تھا جبکہ کیس میں تفتیشی افسر کی جانب سے بیان دیا گیا کہ وہ از سر نو تفتیش کر رہے ہیں۔

چند روز قبل کراچی کی مقامی عدالت میں دعا زہرہ کے والد کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کے بعد مبینہ شوہر اور ملزم ظہیر احمد کے فون کا ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی آفتاب احمد بگھیو نے 15 سے 19 اپریل تک کے ملزم ظہیر احمد کے فون کی سی ڈی آر طلب کی۔ عدالت نے کہا کہ ملزم 15 اپریل کو کراچی میں تھا یا لاہور میں، سی ڈی آر نکال لیں اور عدالت میں پیش کریں۔ سماعت کے دوران ملزم ظہیر احمد کے وکیل بھی پیش ہوئے جبکہ عدالت نے تفتیشی افسر سے ضمنی چالان طلب کرتے ہوئے 20 جولائی تک سماعت ملتوی کر دی تھی۔ اس سے قبل دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر نے عدالت میں کہا تھا کہ اس مقدمے میں دعا سے بار بار جھوٹ بلوایا گیا۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ کس کے کہنے پر بچی ایسا کرتی رہی۔ انھوں نے کہا کہ پولیس نے ملزم کو گرفتار نہیں کیا اور کل جب ملزم ملک سے فرار ہو جائے گا تو کون ذمہ دار ہوگا۔

Related Articles

Back to top button