ایغور مسلمانوں پر جبر، ٹرمپ نے چین پر دباؤ ڈالنے کیلئے بل پر دستخط کردیے

امریکی سابق مشیر قومی سلامتی کی جانب سے ایک کتاب میں امریکی صدر پر بڑے پیمانے پر ایغوروں کی نظر بندی کی منظوری کے الزام کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک قانون سازی پر دستخط کردیے جس میں ایغور مسلمانوں پر جبر پر پابندیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس بل کو کانگریس نے صرف ایک مخالف ووٹ کے مقابلے کثرت رائے سے منظور کرلیا جس کا مقصد چین کی مسلم اقلیت کے اراکین پر ظلم و ستم کے ذمہ داروں کے خلاف پابندیوں کو لازم قرار دے کر چین کو ایک بھرپور پیغام دینا تھا۔ اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق چین کے خطے سنکیانگ میں 10 لاکھ سے زائد مسلمان حراستی مراکز میں قید ہیں۔ امریکی عہدیداروں کی جانب سے چینی حکام پر مسلمان کو تشدد، بدسلوکی اور ’ان کی ثقافت اور مذہب کو مٹانے‘ کا الزام لگایا جاتا ہے۔ دوسری جانب چین ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کیمپوں میں ہنر کی تربیت دی جاتی ہے اور یہ انتہا پسندی سے لڑنے کے لیے ضروری ہیں۔
امریکی صدر کی جانب سے بل پر دستخط کرنے بعد چین کی جانب سے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس کے ذریعے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی صورت حال کو ’بدنام‘ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ چین کے خلاف بدنیتی پر مبنی حملہ ہے۔ چینی وزارت خارجہ کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ ’ہم ایک مرتبہ پھر امریکا پر زور دیتے ہیں کہ اپنی غلطی کو درست کرے اور چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور چینی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے سنکیانگ سے متعلق قانون کا استعمال روک دے‘۔ فیصلے میں بغیر کوئی تفصیل بتائے یہ بھی کہا گیا کہ ’بصورت دیگر چین پوری طرح جوابی کارروائی کرے گا اور اس سے پڑنے والے اثرات کی تمام تر ذمہ داری امریکا پر عائد ہوگی‘۔
واضح رہے کہ امریکا ور چین کے مابین پہلے ہی کورونا وائرس کو سنبھالنے اور تائیوان کے لیے امریکی حمایتکے حوالے سے کشیدگی پائی جاتی ہے۔
ایغور مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے سب سے بڑے جلا وطن گروپ ورلڈ ایغور کانگریس نے قانون سازی پر امریکی صدر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس سے ’مایوس ایغور افراد کو امید ملی ہے‘۔ ایغوروں سے متعلق امریکی قانون میں پہلی مرتبہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی پالیسی بنانے والی کمیٹی پولیٹ بیورو، کمیونسٹ پارٹی سنکیانگ کے سیکریٹری، شین کوانگو کو ’انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی‘ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں بل میں سنکیانگ میں کام کرنے والی امریکی کمپنیوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے اقدامات کریں کہ جبری مشقت سے تیار شدہ اشیا استعمال نہ کی جائیں۔
اس کے علاوہ امریکی صدر نے ایک دستخط شدہ بیان بھی جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ بل کی کچھ شرائط سفارت کاری کے لیے ان کے آئینی اختیار کو محدود کرسکتی ہیں لہٰذا اسے لازم نہیں بلکہ ہدایت کے طور سمجھا جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button