راولپنڈی کی پرانی یادیں بھارتی خاتون کو 75 سال بعد پاکستان کھینج لائیں؟

راولپنڈی کی تنگ گلیاں اور موسم برسات میں بالکونی میں گانے کی یادیں 1947 میں جُدا ہونے والی بھارتی خاتون کو 90 سال کی عمر میں دوبارہ اُسی مقام پر لے آئی ہیں، طویل عرصے بعد اپنے تین منزلہ گھر کو دوبارہ دیکھنے پر بھارتی خاتون کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
مہاراشٹر کے شہر پونے سے تعلق رکھنے والی 90 سالہ رینا ورما نے آخر کار اس گھر کو دیکھنے کا اپنے خاندان کا خواب پورا ہوگیا جسے وہ 75 سال پہلے چھوڑ کر گئی تھیں، ان کے دورے اور متعلقہ رسمی کارروائی کے لیے فیس بک پیج ’’انڈیا پاکستان ہیریٹیج کلب‘‘ کے ایڈمنسٹریٹر عمران ولیم نے سہولت فراہم کی۔
عمران ولیم نے بتایا کہ بھارتی حکام کو بھی اسی طرح کا مثبت جواب دینا چاہئے کیونکہ پاکستان سے بھی 20 سے زیادہ بزرگ شہری سرحد پار اپنے آبائی گھروں کو جانا چاہتے ہیں، ہم دونوں ممالک کے مشترکہ ورثے کو اُجاگر اور تقسیم کے بعد الگ ہونے والے خاندانوں کو دوبارہ ملانے کیلئے کام کرتے ہیں، ہم لوگوں کو سرحد پار سفر کی اجازت کے حصول میں مدد کرنا چاہتے ہیں۔
اس گھر کے دورے کے بعد خصوصی گفتگو میں رینا ورما نے نم آنکھوں سے بتایا کہ ان دنوں ہمارے پاس ریڈیو اور گراموفون تھا اور بالخصوص جب بارش ہوتی تھی تو میں ہمارے گھر کی بالکونی سے گانے گاتی تھی، رینا نے دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنے ویزے کے نظام میں نرمی کریں تاکہ دونوں طرف کے لوگوں کو کثرت سے ملنے کا موقع مل سکے۔
رینا ورما نے بتایا کہ میں نئی نسل پر زور دیتی ہوں کہ مل کر کام کریں اور چیزوں کو آسان بنائیں، انسانیت ہر چیز سے بالاتر ہے اور تمام مذاہب انسانیت کا درس دیتے ہیں، بھارتی خاتون نے کہا کہ صرف ایک چیز جس نے انہیں اس موقع پر اُداس کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس پرمسرت موقع پر ان کی خوشی میں شریک ہونے کے لیے ان کے خاندان کے آٹھ افراد میں سے کوئی بھی حیات نہیں ہے۔
رینا ورما نے کہا کہ میں یہ دیکھ کر بہت خوش ہوں کہ گھر اپنی جگہ قائم ہے، یہاں تک کہ چمنی بھی کام کرنے کی حالت میں ہے جس میں سردیوں کی چھٹیوں کے دوران ہم گرمائش کے لیے لکڑی جلاتے تھے، حیران کن طور پر عمر کے اس حصے میں ہونے کے باوجود رینا کو تمام تر چیزیں ازبر تھیں بلکہ انہیں راولپنڈی میں گزارے ہوئی زندگی بھی یاد ہے حالانکہ جب وہ یہاں سے گئیں تو محض 15 سال کی تھیں۔
بھارتی خاتون کے مطابق ہم آنے والے دنوں میں مری کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، مجھے یاد ہے کہ ہم ہر موسم گرما میں وہاں جاتے تھے چونکہ رینا کے بھائی برٹش آرمی میں تھے، اس لیے یہ خاندان 1947 کے بعد پونے چلا گیا جہاں ان کے بھائی کی تعیناتی ہوئی تھی لیکن اس خاندان نے راولپنڈی کے گھر کے عوض کسی دوسری جائیداد کے حصول کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔
میری والدہ ہمیشہ سے یہ گھر چاہتی تھیں لیکن اگر ہم کوئی دوسرا گھر لے لیتے تو اس گھر پر ہمارا حق ختم ہو جاتا، حالات بدل گئے ہیں لیکن لوگوں کی طرف سے جس پیار اور محبت کی بارش ہوئی ہے اس کی وجہ سے پاکستان ہمیشہ ان کے دل میں رہے گا، رینا ورما کو اب بھی اس وقت کی کچھ چیزیں یاد ہیں جب وہ اور ان کے خاندان نے اپنا گھر چھوڑا تھا۔
ان کا خاندان ان لاکھوں افراد میں شامل تھا جن کی زندگیاں برصغیر کی تقسیم سے انتشار کا شکار ہو گئی تھیں، ایک موقع پر رینا ورما بغیر سہارے کے سیڑھیاں نہ چڑھنے پر بے اختیار ہنس پڑیں اور بولیں کہ اسے میں ایک دن میں لاتعداد بار ’’پرندے کی طرح‘‘ پھلانگ جاتی تھی، جب وہ راولپنڈی میں رہتی تھیں تو یہ ایک ہندو گلی تھی لیکن اس کے پڑوس میں مسلمان، عیسائی اور سکھ سب امن سے رہتے تھے۔

Related Articles

Back to top button