امریکہ نے مشرف کی وجہ سے بی بی کو سیکیورٹی دینے سے انکار کیا

اپنی زندگی کو درپیش سنگین خطرات کے پیشِ نظر سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے 2007 میں وطن واپسی سے پہلے اور بعد میں امریکی حکام سے فول پروف سکیورٹی اوربلٹ پروف جیکٹ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جو امریکہ نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ وہ موجودہ حکمران مشرف کے سیاسی مخالف کو سکیورٹی فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
امریکہ میں تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے جنوبی ایشیا فیلو شجاع نواز نے بی بی سی کو یہ تفصیلات فراہم کی ہیں جو وہ 2019 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’دی بیٹل فار پاکستان‘ میں بھی تحریر کر چکے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کے پاکستان میں سابق نمائندے اوون بینیٹ جونز کے ساتھ بھی بطور محقق کام کیا ہے۔ اوون بینیٹ جونز کی کتاب ‘دی بھٹو ڈائنیسٹی: دی سٹرگل فار پاور ان پاکستان‘ حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ شجاع نواز بتاتے ہیں کہ واشنگٹن کے ایک ہوٹل میں چائے پر بینظیر بھٹو سے اُن کی ملاقات ہوئی جس کے دوران محترمہ سے پوچھا گیا کہ ’کیا آپ نے اپنی ذاتی سکیورٹی کے لیے انتظامات کیے ہیں، کیونکہ اس وقت پاکستان میں دہشت گرد حملے ہو رہے تھے۔ القاعدہ اور تحریک طالبان نے اعلان کر چکے ہیں کہ وہ بینظیر کے خلاف ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ایک عورت مسلمان ملک کی وزیر اعظم بنیں؟‘
شجاع نواز بتاتے ہیں کہ اس بات چیت میں آصف زرادری نے اُن کے اِس سوال کے جواب میں کہا کہ ’ہمارے پاس بلٹ پروف جیکٹ ہے۔‘ ’میں نے پوچھا کہ کہاں ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا بلاول ہاؤس میں۔‘ ’میں نے کہا کہ خطرہ اس وقت سے شروع ہو گا جب آپ بلاول ہاوس پہنچیں گے اور جیکٹ پرانے ڈیزائن کی یے جبکہ اب اسلحہ کافی جدید ہو چکا ہے۔‘ شجاع نواز کے ذہن میں ڈرگن سکن نامی باڈی آرمر تھی جو عراق میں امریکی فورسز اور عراقی حکومت کو فراہم کی گئی تھیں۔ ان کے مطابق انھوں نے بینظیر بھٹو کو مشورہ دیا کہ ان کی سیکیورٹی پروٹیکشن کیسی ہونی چاہیے۔ بی بی کو بتایا گیا کہ امریکہ میں خاص طور پر خواتین کے لیے باڈی آرمر بناتے ہیں جو گلے تک ہوتا ہے اور اس کا وزن بھی زیادہ نہیں ہوتا۔ شجاع کے مطابق بینظیر نے مجھے کہا کہ آپ ہمارا ان سے رابطہ کروا دیں۔ میں نے بذریعہ ای میل کمپنی سے رابطہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ دبئی جا کر سائز لے سکتے ہیں لیکن یہ ایک کنٹرولڈ آئٹم ہے جس کی فراہمی کے لیے حکومت پاکستان کی اجازت ضروری تھی۔‘
شجاع نواز بتاتے ہیں کہ بینظیر نے انھیں کہا کہ وہ حکومت پاکستان کو اس حوالے سے درخواست نہیں کرنا چاہتی کیونکہ پروٹوکول کے تحت انھیں یہ درخواست واشنگٹن میں پاکستان کے سفارت خانے میں موجود دفاعی اتاشی کو کرنا پڑے گی، اور دفاعی اثاشی منظوری تبھی دیں گے جب مشرف انھیں ایسا کرنے کی اجازت دیں گے۔ شجاع نواز کہتے ہیں کہ بینظیر کا کہنا تھا کہ وہ مشرف کا احسان نہیں لینا چاہتیں اور یوں یہ بات وہاں ہی ختم ہو گئی۔ بعد ازاں کراچی میں 18 اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو کی خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپسی کے روز استقبالی کارواں میں دھماکے ہوئے جس میں 145 سے زائد کارکن ہلاک اور کئی درجن زخمی ہو گئے لیکن بینظیر بھٹو ان دھماکوں میں محفوظ رہیں۔ دوسری جانب اوون بینٹ جونز اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کو فوج پر اعتماد نہیں تھا۔
انھوں نے اپنی سکیورٹی کا انتظام اپنے رضاکاروں سے کروایا تھا، فوج کی جانب سے ایک سگنل جیمر گاڑی فراہم کی گئی تھی تاکہ ریموٹ کنٹرول بم کے سگنلز کو روکا جا سکے لیکن اس کی بیٹریاں بھی ڈرین ہو گئیں تھیں۔ شجاع نواز بتاتے ہیں کہ جب کراچی کا حملہ ہوا تو آصف زرداری نے رابطہ کیا اور کہا کہ ’آپ باڈی آرمر بنانے والی کمپنی کا رابطہ بھیجیں، ہم کوشش کریں گے کہ متحدہ عرب امارات کے ذریعے یہ باڈی آرمر حاصل کریں۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ان کے پاس اتنا وقت تھا۔‘
شجاع نواز امریکی کانگریس، یورپی یونین اور دیگر فورمز کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے بینظیر بھٹو کو خطرات سے آگاہ کیا تھا کیونکہ اُن کے پاس کافی معلومات تھیں اور انھیں صورتحال کا اندازہ بھی تھا۔
’کراچی میں کارساز حملے کے بعد امریکہ کے سفارت خانے نے بینظیر کو کہا تھا کہ آپ پر پھر حملے کا خطرہ ہے۔ بی بی سی کے صحافی اوون بینٹ جونز کی بھی یہ معلومات ہیں۔ بلاول ہاؤس میں بینظیر بھٹو کے ساتھ امریکی سفیر این پیٹرسن کی ملاقات ہوئی تھی جس میں بینظیر نے درخواست کی تھی کہ صورتحال اور ان کی سکیورٹی کا جائزہ لیا جائے اور اقدامات اٹھائے جائیں۔‘
’اس پر این پیٹرسن نے جواب دیا تھا کہ امریکی حکومت صرف ملکی سربراہان کو سکیورٹی فراہم کر سکتی ہے، ایسے اپوزینش رہنماؤں کو نہیں جو سیاسی تحریک میں شامل ہوتے ہیں کیونکہ اگر انھیں سکیورٹی فراہم کی گئی تو بظاہر یہ ہی لگے گا کہ امریکہ حکومت کے خلاف ایک سیاسی رہنما کی حمایت کر رہا ہے۔‘
یوں بے نظیر کو سیکیورٹی نہ مل سکی اور ان کے خدشات تب درست ثابت ہوئے جب 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر ہونے والے خودکش حملے میں انہوں نے جام شہادت نوش کیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button