فصلی بٹیرے تحریک انصاف چھوڑنے کے لیے پر تولنے لگے


پچھلے تین برسوں میں حکومت کی ناقص ترین کارکردگی اور بڑھتے ہوئے عوامی رد عمل کے پیش نظر حکمراں تحریک انصاف سے وابستہ کئی اہم لیڈرز بارے ادھر ادھر دوسری جماعتوں کی طرف دیکھنے اور پارٹی چھوڑنے کی اطلاعات نے وزیر اعظم عمران خان کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کے اندر پریشر گروپس کے قیام اور نئی صف بندیوں سے یہ تاثر پختہ ہو چلا ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے پہلے حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے فصلی بٹیرے اڑان بھر جائیں گے اور اسے الیکٹ ایبلز کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ حال ہی میں وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بعض حکومتی اراکین نے موڈ بھی دکھایا اور حکومت کی ناقص کارکردگی کے حوالے سے اپنے تحفظات بھی کھل کر بیان کیے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں ایک سٹیج پر یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ کیا وفاقی وزیر غلام سرور خان پی ٹی آئی چھوڑ کر نواز لیگ میں واپس جانے کا سوچ رہے ہیں۔ جب اس حوالے سے وزیراعظم نے غلام سرور خان سے باتوں باتوں میں ان کے ارادے جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے اپنی پوزیشن کلئیر کرتے ہوئے کپتان کو ایک طرح کا الٹی میٹم دے دیا۔
ذرائع نے کہا کہ وفاقی وزیر غلام سرور خان نے پارٹی قیادت کی جانب سے چوہدری نثار علی خان سے تحریک انصاف میں شمولیت بارے ہونے والی مشاورت پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر نثار پی ٹی آئی میں شامل ہو سکتا ہے تو میں (ن) لیگ میں کیوں نہیں جا سکتا۔ اگرچہ غام سرور خان نے عوامی سطح پر تاحال پارٹی چھوڑنے کی بات نہیں کی تاہم چوہدری نثار کو تحریک انصاف میں شامل کرنے کی افواہیں زور پکڑنے کے بعد غلام سرور اعوان اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے خاصے فکر مند ہیں۔

واضح رہے کہ چوہدری نثار غلام سرور خان کے سیاسی حریف ہیں اور پچھلے الیکشن میں انہوں نے نثار کو شکست دی تھی۔ چوہدری نثار کے شکست کھانے کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ انہوں نے نے نواز لیگ کا ٹکٹ نہ ملنے کے بعد جیپ کے نشان پر آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا تھا۔ ان حالات میں نثار کی پی ٹی آئی میں جگہ تب ہی بنے گی جب غلام سرور خان کی چھٹی ہو جائے یا وہ خود پارٹی چھوڑ جائیں۔

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان اور وزیر دفاع پرویز خٹک کے مابین بڑھتے ہوئے فاصلوں کے بعد ایسی افواہیں پہلے سے گرم ہیں کہ خٹک نے 22 ممبران اسمبلی پر مشتمل اپنا ایک علیحدہ پریشر گروپ تشکیل دے دیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ پرویز خٹک کی قیادت میں بننے والے اس پریشر گروپ نے ترقیاتی منصوبوں کے لئے وافر فنڈز اور نئے گیس کنکشنز نہ ملنے کے باعث تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے حالیہ اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا جس پر وزیراعظم عمران خان نے ناراض اراکین کو اپنے چیمبر میں بلایا اور انکے مطالبات حل کرنے کی یقین دہانی کروائی۔

بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم کی یقین دہانی کے بعد وزیر دفاع کی زیر قیادت پریشر گروپ پارلیمانی اجلاس میں شریک تو ہوا لیکن اس کی ناراضی ابھی تک برقرار ہے۔ اس گروپ نے کپتان سے شکوہ کیا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام نہ کروائے تو آئندہ الیکشن میں ان سب کی ضمانتیں ضبط ہوجائیں گی۔انکا کہنا تھا کہ حکومتی جماعتوں کے ارکان اسمبلی اسکیموں کے بغیر اور مہنگائی کی موجودہ صورت حال کے باعث اگلے الیکشن میں اپنے حلقوں میں عوام کے پاس ووٹ مانگنے کس منہ سے جائیں گے۔

ان تمام افواہوں کے دوران یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے کابینہ میں تبدیلوں اور نئے کھلاڑیوں کی انٹری کا اشارہ دے دیا ہے اور غلام سرور خان کی وزارت بھی تبدیل کی جا سکتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم، غلام سرور خان کی بطور وزیر ہوا بازی پرفارمنس سے مطمئن نہیں ہے چنانچہ اپنی وزارت خطرے میں دیکھ کر غلام سرور خان نے بھی اپنے کپتان پر دباؤ ڈالنے کے لیے موڈ بنا لیا ہے۔ لہذا اگر ان کی وزارت تبدیل کی جاتی ہے یا نہیں وزارت سے فارغ کیا جاتا ہے تو ان کے تحریک انصاف چھوڑنے کے قوی امکانات ہیں۔

Related Articles

Back to top button