وزیراعظم کی خالد جاوید خان کو نیا اٹارنی جنرل مقرر کرنے کی منظوری

وزیراعظم عمران خان نے خالد جاوید کو نیا اٹارنی جنرل پاکستان تعینات کرنے کی منظوری دے دی ہے.
وزیر اعظم کی طرف سے وزارت قانون کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی کے لیے آج ہی سمری ارسال کریں۔


نو منتخب اٹارنی جنرل خالد جاوید سینئر سیاست دان این ڈی خان کے بیٹے ہیں، ان کے والد پیپلزپارٹی کے دوسرے دورے حکومت میں وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ خالد جاوید نے 1991 میں خود کو ہائی کورٹ ایڈووکیٹ میں رجسٹر ہوئے اور پھر 2004 میں سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ بنے، اس کے علاوہ وہ اٹارنی جنرل کے لیے قانونی مشیر بھی رہے جبکہ 1993 سے 1996 تک بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں وہ ان کے مشیر بھی رہے۔ خالد جاویدسابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں اٹارنی جنرل کے دفتر میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ 1995 سے 1996 تک نجکاری کمیشن پاکستان کے رکن بھی رہے۔ انہوں نے لندن یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی، اس کے علاوہ اوکسفورڈ یونیورسٹی سے بی سی ایل (بیچلر آف سول لا) کی ڈگری لی، جس کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کیا اور لنکولن ان سے بار ایٹ لا کیا۔
خالد جاوید سینئر ایڈووکیٹ ہیں جو سپریم کورٹ میں مختلف کیسز میں پیش ہوچکے ہیں جبکہ 2013 میں وہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے طور پر بھی فرائض انجام دے چکے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ تعیناتی سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان کے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کے ایک روز بعد سامنے آئی۔ انور منصور خان نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کے دوران بینچ کے کچھ اراکین پر الزمات لگائے تھے جس کے بعد وہ گزشتہ روز مستعفی ہوگئے تھے۔اپنا استعفیٰ دیتے وقت انور منصور خان نے کہا تھا کہ انہوں نے پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے مطالبے پر استعفیٰ دیا تاہم وزارت قانون کے مطابق ان سے استعفیٰ لیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کے لیے دائر کی گئی درخواستوں 18 فروری کو اپنے دلائل کے پہلے روز ہی صورتحال اس وقت ناخوشگوار ہوگئی تھی جب اٹارنی جنرل نے شعلہ بیانی سے دلائل کا آغاز کیا تھا۔ اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کے سامنے ایک بیان دیا تھا، جس پر ججز نے انہیں استثنیٰ دیتے ہوئے بیان سے دستبردار ہونے کا کہا تھا، ساتھ ہی مذکورہ بیان کو ’بلا جواز‘ اور ’ انتہائی سنگین‘ قرار دیا تھا۔ تاہم اٹارنی جنرل نے بیان واپس لینے سے انکار کردیا تھا جس پر پاکستان بار کونسل نے ایک بیان میں اٹارنی جنرل سے غیر مشروط تحریری معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے ‘غیر معمولی طرز عمل’ پر استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button