نیب ترامیم پر اٹارنی جنرل کی وضاحت پر سینیٹ میں احتجاج

ںیب ترامیم پر وضاحت کے لیے اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی کی جانب سے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو لکھے گئے خط پر سینیٹ میں احتجاج کیا گیا۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل نے مجھے خط لکھا ہے میں سمجھتا ہوں امانت کے طور پر ہاؤس کے سامنے رکھی جائے، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بتایا کہ اٹارنی جنرل پاکستان نے مجھے بھی خط لکھا ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے وضاحت نہیں کی، ایک بیانیہ دیا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ خود کورٹ میں موجود تھے، وہاں ’ملک کا صرف ایک ہی وزیراعظم دیانتدار تھا‘ جیسی کوئی بات عدالت میں نہیں ہوئی۔عدالت میں 1993 اور 1988 کی اسمبلیاں توڑنے کی بات ہوئی تھی، سوشل میڈیا رپورٹس درست نہیں ہیں۔

رضا ربانی نے مزید کہا کہ یہ نہایت افسوسناک بات ہے کہ اٹارنی جنرل نے یہ جرات کی ہے کہ ہاؤس کی کارروائی کی وضاحت کریں، اٹارنی جنرل کو یہ استحقاق ہے کہ وہ دونوں ہاوسز میں آکر بیٹھ سکتا ہے، وہ اس ہاؤس کا رکن نہیں، اس ہاؤس کی کارروائی پر کنٹرول نہیں کر سکتا، اٹارنی جنرل اس ہاؤس کی کارروائی پر وضاحت جاری نہیں کر سکتے نہ بات کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب عدلیہ کی جانب سے پارلیمنٹ کے اوپر حملہ ہوتا ہے تب بھی اٹارنی جنرل کو عدالت میں کھڑے ہوکر پارلیمنٹ کا دفاع کرنا چاہیے، اٹارنی جنرل کے اس خط پر تحفظات ہیں، ریکارڈ کے لئے وہ خط اس ہاؤس کے سامنے رکھا جائے۔

وزیر قانون نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے صرف وضاحت کی ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا سوشل میڈیا پر چلا، اٹارنی جنرل کو کس نے تبصرے کرنے کا حق دیا ہے، وضاحت کرنی ہے تو رجسٹرار صاحب وضاحت جاری کریں۔

پوزیشن لیڈر سینیٹ شہزاد وسیم نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ انتخابات کی فی الفور تاریخ دیں، الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں اور میدان میں آئیں، کیا لاہور ہائی کورٹ عدالت نہیں؟ سینیٹ میں شور شرابے کے بعد چیئرمین سینیٹ نے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے دیئے گئے ریمارکس پر سینیٹ اراکین کے شدید اعتراض پر اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے وضاحت کے لیے گزشتہ روز وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو خط لکھا تھا۔

اٹارنی جنرل نے اپنے خط میں کہا کہ سوشل میڈیا پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس سے متعلق غلط رپورٹنگ کی گئی ہے جس کے ردعمل میں سینیٹرز نے تنقید کی، چیف جسٹس نے یہ نہیں کہا تھا کہ صرف محمد خان جونیجو ہی ایماندار وزیر اعظم تھے، وزیراعظم کی دیانتداری سے متعلق چیف جسٹس کے ریمارکس کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے مزید لکھا کہ نیب ترامیم کیس کی سماعت میں، میں خود موجود تھا اور اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ دوران سماعت ایسی کوئی بات نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس نے یہ ریمارکس 1988 میں سپریم کورٹ کی جانب سے قومی اسمبلی کی بحالی کا حکم نہ دینے کے تناظر میں دیے تھے اور سابق چیف جسٹس نسیم حسن کے مؤقف کو دہرایا تھا جنہوں نے نواز شریف کیس میں اسمبلی بحال نہ کرنے پر پچھتاوے کا اظہار کیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے لکھا کہ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ محمد خان جونیجو ایک اچھے اور آزاد وزیر اعظم تھے جن کی حکومت 58 (2) بی کے تحت ہٹائی گئی۔

انہوں نے اعظم نذیر تارڑ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ خط اس توقع کے ساتھ آپ کو لکھا جارہا ہے کہ آپ اس حوالے سے ریکارڈ درست کرنے کے لیے اپنے ساتھی اراکین پارلیمنٹ کے سامنے حقائق پیش کریں گے۔

Related Articles

Back to top button