’’روز مرہ زندگی کے دلچسپ حقائق جن سے آپ حیران رہ جائیں‘‘

انسان روز مرہ کی مصروفیات سے تھک ہار کر قریبی ساتھی، دوستوں کے ساتھ فراغت کے لمحات گزارنے کو جسمانی اور روحانی صحت کے لیے فائدہ مند قرار دیتا ہے، ایسا ہی کچھ گائے کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔
جی ہاں انسانوں کی طرح گائے بھی دوسری گایوں کے ساتھ گہرے رشتے بنا سکتی ہے اور ان سے گہری دوستی کرسکتی ہے جو ان کی پوری زندگی بھی قائم رہ سکتی ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جب گائے اپنے دوست کے قریب نہیں ہوتی تو اسے بھی ٹینشن ہوتی ہے۔
شہد اللہ کی نعمتوں میں سے ایک اہم ترین نعمت و خوراک ہے اور اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ جتنا عرصہ بھی رکھا رہے خراب نہیں ہوتا، آثار قدیمہ کے ماہرین کو قدیم مصری مقبروں میں شہد سے بھرے برتن ملے جو 3 ہزار سال سے زیادہ پرانے ہیں، شہد بالکل بھی خراب نہیں ہوا اور اب بھی بڑے اطمینان سے کھایا جا سکتا ہے۔اہرام مصر کے بارے میں کون نہیں جانتا اور وہ دنیا کے عجوبوں میں سے ایک ہیں۔ ایک عام تاثر ہے کہ مصر میں اہرام کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی لیکن حقیت یہ ہے کہ سوڈان اس معاملے میں مصر سے آگے ہے کیوں کہ مصر میں اہرام کی تعداد 118 ہے جب کہ سوڈان میں یہ دگنی سے بھی زیادہ یعنی 255 ہے۔1920 کی دہائی میں تھوڑی دیر کے لیے والٹ ڈزنی نے اپنے افسانوی چوہے کا نام مورٹیمر رکھا تھا لیکن پھر ان کی اہلیہ کو خیال آیا کہ اسے تبدیل کر کے تھوڑا اور دلسچپ بنایا جائے لہٰذا اس کردار کا نام تبدیل کر کے مکی ماؤس رکھ دیا گیا۔جب بھی ہم شرمندہ ہوتے یا شرماتے ہیں تو ہمارے چہرے کی رگیں کھل جاتی ہیں اور چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔ یہ ردعمل صرف انسانوں میں پایا جاتا ہے۔ یوں تو جانور بھی شرماتے ہیں لیکن ان میں چہرے پر سرخی آنے والی علامت پیدا نہیں ہوتی یا یوں کہیں کہ جانور اس جذبے کو چھپانے میں انسان سے زیادہ ماہر ہوتے ہوں گے۔ایک پینسل میں اتنا گریفائٹ ہوتا ہے کہ آپ اس سے اگر ایک لکیر کھینچنا شروع کریں تو اس کی طوالت 35 میل یا 56 اعشاریہ 3 کلومیٹر ہوگی۔تیزرفتار ڈرائیونگ کرنے پر پہلی مرتبہ جرمانہ انگلینڈ کے والٹر آرنلڈ نامی شخص پر کیا گیا تھا جو آج کے تقریباً 5 برطانوی پاؤنڈ کے برابر ہے۔ایک شیف کی ٹوپی میں 100 تہیں ہوتی ہیں۔ تہوں کی اس تعداد سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اسے انڈہ پکانے کے 100 طریقے آتے ہیں، کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ شیف کی ٹوپی جتنی اونچی ہوگی وہ اتنا ہی زیادہ تجربہ کار ہوتا ہے۔او مائی گاڈ کی بجائے اب خصوصاً سوشل میڈیا پر چیٹنگ کے دوران اور روزمرہ کی گفتگو میں بھی او ایم جی کا استعمال کیا جاتا ہے اور لوگوں میں عام تاثر یہی ہے کہ یہ نئے دور کی اختراع ہے لیکن ایسا نہیں ہے یہ مخف 100 سال سے بھی زائد عرصہ قبل استعمال کیا گیا تھا، او ایم جی کو پہلی جنگ عظیم کے دوران جان آربتھنوٹ فشر نامی ایڈمرل نے استعمال کیا تھا۔ انہوں نے ستمبر 1917 میں ونسٹن چرچل کے نام اپنے ایک خط میں او مائی گاڈ کی جگہ او ایم جی کا

 پیوٹن کی بھارت میں جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت سے معذرت

استعمال کیا تھا۔

Related Articles

Back to top button