پاکستانی شادیوں کی معروف و انوکھی رسومات

کراچی میں ہونے والی فاطمہ بھٹو کی شادی کی تقریب میں دُولہا اور دُلہن کے سر ساتھ ملانے کی رسم کی تصویر وائرل ہونے پر سوشل میڈیا یر شادیوں کی انوکھی رسومات موضوع بحث بن گئی ہیں۔
گزشتہ دنوں فاطمہ بھٹو (جو پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو کی پوتی ہیں) کی شادی کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر ہوئیں تو جہاں ان کی سادگی سے کی جانے والی شادی زیر بحث رہی وہیں ان کی وہ تصویر بھی دلچسپی کا مرکز رہی جس میں ایک رسم ’لانوا‘ کے دوران فاطمہ اور ان کے شوہر عروسی جوڑے میں ملبوس ہیں اور ان کے سر کو باہم ٹکرایا جا رہا ہے۔
اس یادگار تصویر پر جہاں اس خاص رسم ’لانوا‘ سے متعلق لوگوں نے سوالات کیے وہیں اپنے علاقے اور روایات سے متعلق شادی کی کئی دیگر رسموں سے متعلق بھی بات کی، پاکستان میں آباد مختلف پس منطر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ہاں کئی نسلوں سے رائج بے شمار رسمیں ایسی ہیں جو انڈیا پاکستان کی تقسیم کے وقت سے بھی پہلے کی چلی آ رہی ہیں۔
کراچی کی رہائشی مٹھن سومرو نے لانوا کے بارے میں بتایا کہ ہمارے ہاں روایتاً سمجھا جاتا ہے کہ مقدر یا قسمت ماتھے پر لکھی ہوتی ہے تو لانوا کی رسم سے علامتی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ دونوں میاں بیوی نہ صرف خوشیاں، غم اور دُکھ سکھ بانٹیں گے بلکہ زندگی بھر بخوشی ایک دوسرے کا ساتھ نبھائیں گے۔
مٹھن سومرو کے مطابق ’اسی طرح سندھ میں ایک اور رسم یہ بھی ہے کہ شادی کے بعد رخصتی سے قبل لڑکی والے ایک تھال میں کچے چاول رکھتے ہیں اور سات بار دولہا اپنی دلہن کے ہاتھ میں چاول رکھتا ہے اورپھر دلہن وہی چاول دولہا کے ہاتھ میں رکھتی ہے۔
ایک اور ایسی ہی رسم کپاس کو ماتھے پر رکھ کر چُنوانا ہے۔ اس کے پیچھے علامت یہ ہے کہ کپاس کیونکہ خوشحالی کی علامت ہے تو دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوشحال رہیں۔ یہ رسم بھی سات بار کی جاتی ہے اور باری باری میاں بیوی ایک دوسرے کے سر سے کپاس کو محبت سے چنتے ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی نمرہ زوہیب نے اپنے بھائی کی شادی کے دوران ایک رسم ’صدقولے‘ کے متعلق بتایا کہ جس میں بھابھی کے ہاتھ میں کھیر رکھ کر قریبی گھر والوں کا منہ میٹھا کروایا جاتا ہے، اس رسم کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ نئی نویلی دلہن کا تعارف سب کا منہ میٹھا کروا کے ہو۔
پشاور کی صحافی فرزانہ علی نے خیبرپختونـخوا کی چند منفرد رسومات ’موہاڑی‘ اور ’مٹھ‘ کے متعلق بتایا کہ موہاڑی ایک قدیم رسم ہے جس میں جب لڑکی بیاہ کر سسرال جاتی ہے تو وہ گھر میں داخل ہو کر پہلے چوکھٹ تھامتی ہے، جس کے بعد سسر اپنی بہو کو منہ دکھائی اور دعا دیتے ہیں۔رسم مٹھ کے حوالے سے بتایا کہ اس میں کپاس کے اندر الائچی کے سات دانے رکھ کر دولہا اور دلہن کے ہاتھوں پر رکھے جاتے ہیں اور پھر یہی کپاس سر پر رکھی جاتی ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی عصمت حفیظ نے شادی بیاہ کی ایک اور رسم ’اوربل‘ کے بارے میں بتایا۔ مہندی کی رات کو ہم ارمل کہتے ہیں جس میں مہندی کو روایتاً پوری ہتھیلی پر لگایا جاتا ہے، بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن ایڈوکیٹ جلیلہ حیدر نے بتایا کہ ان کی ہزارہ برادری کے کلچر میں بھی کئی دلچسپ روایات موجود ہیں۔
اپنی ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ ہمارے ہاں جب دلہن کو رخصت کیا جاتا ہے تو اس کا باپ یا بھائی لڑکی کی کمر میں بنارسی کپڑے کی بیلٹ باندھتا ہے، جس کے اندر پیسے، تھوڑی گندم/اناج، چھوٹا سا چاقو رکھا جاتا ہے۔ جسے سسرال کی نئی نویلی دلہن کھولتی ہے۔
’شادی والے دن بھابھیاں اپنے دیور کی شادی کے وقت اس کی کی آنکھ میں سرمہ ڈالتی تھیں جس کا انھیں نیگ (نقد رقم) ملتا تھا۔ دلہن کو رخصت کروا کے گھر میں داخل ہوتے وقت ساس اپنی بہو کے پیر کی مہندی دھلاتی اور دہلیز پار کرواتی تھیں جبکہ شادی کے جوڑوں کا پہلا کپڑا لڑکے کی پھوپھی قینچی سے خود تراشتی تھیں جس کا نیگ بھی مخصوص تھا۔ سات دن مایوں بٹھانا، ابٹن کھیلنا اور ایسی ہی بے شمار رسومات اب رفتہ رفتہ کم ہو گئی ہیں، ان کے مطابق شادی بیاہ کی اس طرح کی بے شمار رسومات ہیں مگر ان سب رسموں کا تعلق صرف مل بیٹھنے کا بہانہ ہے، جن سے محبت و پیار کا اظہار ہوتا ہے۔

Related Articles

Back to top button