توشہ خانہ کیس میں عمران خان کا بچنا ممکن کیوں نہیں؟

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن میں دائر کردہ توشہ خانہ نااہلی ریفرنس فارن فنڈنگ کیس سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ 2017 میں اثاثے ڈیکلیئر نہ کرنے کے الزام پر ہی سابق وزیراعظم نواز شریف کو بھی نا اہل قرار دیا گیا تھا اور وہ عمر بھر کے لیے پارلیمانی سیاست سے بے دخل کر دیئے گئے تھے۔
عمران خان پر بھی یہی الزام ہے کہ انہوں نے توشہ خانہ کے تحائف بیچ کر جو کروڑوں روپے کمائے انہیں دو برس تک اپنے سالانہ ڈکلئیر کردہ اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا چنانچہ وہ بھی نواز شریف کی طرح صادق اور امین نہیں رہے اور عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دئیے جانے چاہیں۔ چنانچہ توشہ خانہ ریفرنس میں عمران کا بچنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ نااہلی کیس کی سماعت 18 اگست سے الیکشن کمیشن میں شروع ہو چکی ہے اور کیس کا فیصلہ ایک ماہ کے اندر ہونا ہے لہٰذا عمران خان کے لیے وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی بیرسٹر محسن نواز رانجھا نے عمران خان کے خلاف سپیکر قومی اسمبلی کے پاس آئین کے آرٹیکل 63 (ٹو) کے تحت ریفرنس دائر کیا تھا، جس میں کہا گیا کہ عمران نے سرکاری توشہ خانہ سے تحائف خریدے مگر انہیں الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے اثاثہ جات کے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا، اس طرح وہ ’بددیانت‘ ہیں، لہٰذا انھیں آئین کے آرٹیکل 62 ون (ایف) کے تحت نااہل قرار دیا جائے۔
توشہ خانہ سکینڈل طویل عرصے سے خبروں میں ہے جس کی وجہ یہ الزام ہے کہ عمران اور ان کی اہلیہ سابق خاتون اول بشریٰ بی بی نے توشہ خانے سے سستے داموں قیمتی تحائف خریدنے کے بعد انھیں مہنگے داموں میں بیچ دیا تھا۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ توشہ خانہ سے تحائف خریدے جاتے ہیں اور انھیں مکمل قانونی تحفظ حاصل ہے تاہم اخلاقی طور پر تحفہ بیچنا غلط ہے،البتہ عمران اس بارے میں کہہ چکے ہیں کہ میرا تحفہ، میری مرضی۔
توشہ خانہ ریفرنس کے مطابق درخواست گزار نے کہا ہے کہ عمران خان پر قانونی طور پر لازم تھا کہ وہ ہر مالی سال کے آخر میں اپنے، اپنی اہلیہ اور خاندان کے دیگر افراد کے تمام تر اثاثے چھپائے بغیر الیکشن کمیشن میں جمع کراتے، دستاویز میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ عمران نے ’’جانتے بوجھتے‘‘ توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف کو چھپایا اور یہ قبول کیا ہے کہ انھوں نے یہ تحائف فروخت کر دیے۔لیکن الیکشن کمیشن کے پاس جمع کروائی گئی دستاویزات میں ان تحائف کی فروخت اور ان سے کمائی گئی رقوم بھی چھپائی گئیں۔ دستاویز کے مطابق عمران خان کو اپنی حکومت کے دوران کل 58 باکسز تحائف کی صورت میں ملے جن میں مختلف اشیا تھیں۔ یہ تحائف عمران نے توشہ خانہ سے 20 اور بعدازاں 50 فیصد رقم ادا کر کے حاصل کیے۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جن کی لاگت 30 ہزار سے کم تھی لہٰذا قانون کے مطابق وہ یہ تحائف مفت حاصل کر سکتے تھے جبکہ 30 ہزار سے زائد قیمت کے تحفوں کی قیمت کا 20 فیصد ادا کر کے وہ گفٹس لیے گئے۔
عمران حکومت کے ابتدائی دو ماہ کے دوران حاصل کردہ تحائف میں ایک گراف کی گھڑی بھی شامل ہے جس کی مالیت آٹھ کروڑ 50 لاکھ لگائی گئی جبکہ اسی پیک میں شامل دیگر تحائف میں 56 لاکھ 70 ہزار کے کف لنکس، 15 لاکھ روپے کا ایک پین اور 87 لاکھ 50 ہزار روپے کی ایک انگوٹھی شامل ہے۔ دس کروڑ روپوں سے زائد مالیت کی ان چار اشیا کے لیے عمران خان نے صرف دو کروڑ روپے رقم جمع کرائی اور ان کے مالک بن گے۔
اسی طرح رولیکس کی ایک گھڑی جس کی مالیت 38 لاکھ تھی، عمران خان نے یہ ساڑھے سات لاکھ کے عوض خریدی۔ رولیکس ہی کی ایک اور گھڑی جس کی مالیت 15 لاکھ روپے لگائی گئی، سابق وزیراعظم نے تقریباً ڈھائی لاکھ میں خریدی۔ اسی طرح ایک اور موقع پر گھڑی اور کف لنکس وغیرہ پر مشتمل ایک باکس کی کل مالیت 49 لاکھ تھی، جس کی نصف رقم ادا کی گئی جبکہ جیولری کا ایک سیٹ 90 لاکھ میں خریدا گیا جس کی مالیت ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد مختص کی گئی تھی۔
دستاویر کے مطابق وہ گھڑی جس کے بارے میں یہ الزام ہے کہ اسے بیچ دیا گیا، وہ بھی الیکشن کمیشن کے گوشواروں میں درج نہیں کی گئی۔ خیال رہے کہ یہ گھڑی سابق خاتون اول بشریٰ بی بی نے سعودی عرب کے پہلے دورے کے دوران تحفے کے طور پر لی تھی۔ اس کی مالیت 85 ملین بتائی گئی ہے جسے توشہ خانے سے 20 فیصد ادائیگی کے بعد لیا گیا۔

Related Articles

Back to top button