متنازع سوشل میڈیا قوانین لانے کی بڑی وجہ سامنے آگئی

سوشل میڈیا سے خائف تحریک انصاف حکومت نے ایف آئی اے کے ذریعے گزشتہ سال کم و بیش مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو صارفین کے خلاف چار ھزار سے زائد شکایتیں بھجوائیں۔ تاہم متعلقہ سوشل میڈیاپلیٹ فارمز کی جانب سے دیر سے جواب دینے، حکومت مخالف صارف کیخلاف کارروائی میں تاخیر کرنے یا حکومتی موقف کو رد کرنے کے واقعات کے بعد کپتان اینڈ کمپنی نے متنازع سوشل میڈیا قوانین متعارف کراکے ان اداروں کو پابندیوں میں جکڑنے کا فیصلہ کیا۔
تازہ دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ حکومت پاکستان نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے ذریعے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے حکومت مخالف متنازعہ مواد ہٹانے یا کسی صارف کے اکاؤنٹ سے متعلق تفصیلات جاننے کے لئے 4 ہزار سے زائد مرتبہ رابطہ کیا مگر اسے اکثر کیسز میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ دستاویزات کے مطابق ٹویٹر، یوٹیوب، ڈیلی موشن، لنکڈ ان، سنیپ چیٹ، آئی ایم او اور سکائیپ کی جانب سے ایف آئی اے حکام کو شازونادر ہی کوئی مثبت جواب موصول ہوا۔ بعض اداروں نے کارروائی کرنے میں بہت وقت لیا اورزیادہ تر کیسز میں حق آزادی اظہار کی بنیاد پر حکومت کی منشا کے مطابق متنازعہ مواد کو ہٹانے سے انکار کر دیا گیا۔ اس صورتحال سے سخت نالاں تحریک انصاف حکومت نے سوشل میڈیا کمپنیوں کو زیر کرنے کے لیے ان پر قدغنیں لگانے کا قانون لانے کا فیصلہ کیا جو اب پاکستان بھر میں زیر تنقید ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے حکومت کے آگے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے پاکستان میں اپنی سروسز بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے اور حکومت کی طرف سے ابھی تک اگلے لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا گیا۔ یاد رہے کہ اگر یو ٹیوب، ٹویٹر اور فیس بک جیسی بین الاقوامی سوشل میڈیا کمپنیوں نے پاکستان کے لئے اپنی سروسز بند کردیں تو ملکی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کے زرمبادلہ کا نقصان ہو گا۔
بتایا گیا ہے کہ حکومت نے سوشل میڈیا کمپنیوں کو قابو کرنے کے لیے نئی قانون سازی کرنے سے پہلے ایف آئی اے کے ذریعے 2019 کے دوران چار ہزار سے زائد شکایات داخل کی تھیں۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے چار ہزار 226 مرتبہ سائبر کرائم قوانین کی خلاف ورزی پر مختلف سوشل میڈیا کمپنیز سے رابطہ کیا جن میں دو ہزار 362 درخواستوں پر ان کمپنیز کی جانب سے جواب موصول ہوا جبکہ ایک ہزار 864 درخواستوں پر کمپنیز کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیز اپنے قوانین سے متصادم پوسٹس کے خلاف کارروائی کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا کمپنیز کی جانب سے جواب موصول ہونے میں کافی وقت لگ جاتا ہے اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اکثر ایسی شکایات جن میں حکومت مخالف مواد ہٹانے کی درخواست کی جاتی ہے حق آزادی اظہار کے تحت مسترد کر دی جاتی ہیں۔
دستاویز کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم نے سب سے زیادہ دو ہزار 945 بار فیس بک حکام سے رابطہ کیا جس میں ایک ہزار 655 درخواستوں پر فیس بک کی جانب سے جواب ملا تاہم ایک ہزار 290 درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے انسٹاگرام حکام سے 591 بار مختلف مواد کے خلاف شکایات پر رابطہ کیا ہے جس میں سماجی رابطے کی سائیٹ کی جانب سے 360 درخواستوں پر ریکارڈ فراہم کیا گیا ہے جبکہ 231 درخواستوں پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے 196 بار واٹس ایپ حکام سے بھی رابطہ کیا گیا ہے جس پر 32 درخواستوں پر جواب ملا ہے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے مائیکرو بلاگنگ سائیٹ ٹوئٹر سے بھی 89 مرتبہ رابطہ کیا لیکن ٹویٹر کی جانب سے کسی بھی شکایت پر مثبت جواب موصول نہیں ہوا۔
ایف آئی کی نے 35 مرتبہ متنازع مواد ہٹانے کے لیے یوٹیوب سے رابطہ کیا گیا لیکن یوٹیوب حکام نے کسی بھی درخواست کا مثبت جواب نہیں دیا۔ ایف آئی اے نے ڈیلی موشن، لنکڈ ان، سنیپ چیٹ، آئی ایم او، وی چیٹ، سکائیپ اور او ایل ایکس حکام سے بھی شکایات کیں۔ تاہم ڈیلی موشن، لنکڈ ان، سنیپ چیٹ، آئی ایم او اور سکائیپ کی جانب سے ایف آئی حکام کو کوئی مثبت جواب موصول نہیں ہوا تھا۔
چنانچہ سوشل میڈیا کو نکیل ڈالنے اور ریاستی پالیسی کا تابع بنانے کے لئے حکومت نے متنازع ترین سوشل میڈیا قوانین متعارف کروانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم دوسری جانب سوشل میڈیا کمپنیاں بھی اس نا انصافی کے خلاف ڈٹ گئی ہیں اور پاکستان میں اپنی سروس بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ ایسے میں خدشہ ہے کہ اگر حکومت اپنی ضد پر قائم رہی تو نہ صرف سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے ملنے والا کروڑ ڈالر کا خطیر زرِمبادلہ چھن جائے گا اور نوجوان نسل میں بیروزگاری بڑھے گی بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بھی بری طرح متاثر ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button