ڈی جی خان: جرائم میں ملوث لادی گینگ گرفتار کیوں نہ ہوسکا؟

پنجاب کے جنوبی شہر ڈیرہ غازی خان میں گزشتہ پندرہ بیس برس کے دوران لادی ڈکیت گینگ سنگین جرائم کی وارداتوں میں ملوث رہا۔
متعدد بار گرفتاری کے باوجود شہریوں کے جان ومال کا خطرہ بننے والے اس چند افراد پر مشتمل گینگ نے تین افرادکو مخبری کے شبہ میں اغوا کیا، دو کو قتل کر دیا جب کہ ایک ابھی تک قبضہ میں ہیں۔ انہوں نے ایک مغوی کے اعضا کاٹ کر بے دردی سے قتل کرتے ہوئے ویڈیو بھی جاری کی جس میں مخبری کرنے والوں کو عبرت ناک سزا دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس ویڈیو کے وائرل ہونے پر پہلے وزیر اعلی پنجاب نے نوٹس لے کر اس گینگ کے خلاف کارروائی کا حکم دیا پھر وزیر اعظم عمران خان نے بدھ کے روز لیہ کے دورے کے دوران خطاب کرتے ہوئے اس گینگ کے خلاف رینجرز کے ذریعے آپریشن کا اعلان کیا جو شروع کردیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پولیس اور رینجرز اہلکاروں نے مغوی خادم حسین کو مقامی سیاسی شخصیات کے ذریعے بازیاب کرا لیا ہے جب کہ گینگ کے خلاف کارروائی کےلیے آپریشن جاری ہے۔ اس گینگ کا سرغنہ خدابخش لادی ہے جس کی مغوی شخص کے اعضاء کاٹتے ہوئے قتل کی ویڈیو جاری کی گئی تھی۔ پولیس حکام کے مطابق اس گینگ کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا اور مستقل تدارک کیا جائے گا۔ ڈیرہ غازی خان سے ملحقہ مظفر گڑھ میں کچے کے علاقے میں دریائے چناب کے کنارے کچھ عرصہ پہلے چھوٹو گینگ کا پڑاؤ رہا۔ وہ بھی ڈکیتوں اغوا سمیت کئی سنگین جرائم میں ملوث رہے، ان کے خلاف بھی رینجرز اور پولیس نے کئی دن کارروائی کی اور انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرکے شہریوں کو نجات دلائی تھی۔ ان دنوں ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سے لادی گینگ کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر کارروئی کا فیصلہ ہوا ہے۔ ڈیرہ غازی خان کے سینئر صحافی اختر علی گجر نے کہا کہ لادی گینگ بارہ پندرہ افراد پر مشتمل ہے۔ یہ انتہائی خطرناک گینگ ہے پہلے اس گینگ کا سرغنہ محمد بخش لادی تھا اب اس کا بیٹا خدابخش لادی ہے۔ یہ منظم گروہ مختلف جرائم کے ساتھ یہاں سرمایہ داروں سے بھتہ بھی لیتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ڈی جی سیمنٹ فیکٹری بھی انہوں نے اس وقت نہیں چلنے دی جب تک ان کی مرضی سے مزدور نہیں رکھے گئے۔ اختر گجر نے کہاکہ ڈیرہ غازی خان ضلع کا 52فیصد حصہ قبائلی طرز کا ہے جہاں قانون کی عمل داری نہیں جب کہ باقی 42فیصد آبادی کا علاقہ ہے جہاں یہ گینگ جرائم کرتا ہے۔ اس علاقے میں بلوچستان اور کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ ہے، آپریشن کے وقت یہ وہاں پناہ لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چند سال پہلے بھی یہاں آپریشن کیاگیا تھا اور لادی گینگ کے کئی ارکان کو گرفتار کرکے میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ اس علاقے کو جہاں یہ گینگ پڑاؤ ڈالتا ہے اسے تمن کھوسہ کہا جاتا ہے۔ لادی کھوسہ قبیلے کا ذیلی قبیلہ ہے، یہاں تاثر پایا جاتا ہے کہ اس گینگ کو بعض بزداروں، کھوسوں، لغاریوں اور گورچانی سرداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف مؤثر کارروائی ہو بھی جائے تو یہ دوبارہ رہا ہوکر متحرک ہوجاتے ہیں جب تک مستقل بنیادوں پر یہاں حکمت عملی نہیں بنائی جاتی یہ سلسلہ ختم نہیں ہوسکتا۔ ریجنل پولیس آفیسر ڈیرہ غازی خان محمد فیصل رانا نے کہا کہ پولیس، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور قانون پسند عوام ایک پیج پر ہیں۔ عوام کی جانوں سے کھیلنے والوں کے خلاف جاری آپریشن کا اختتام قانون شکنوں کے قانون کے تحت خاتمے پر ہو گا۔ قانون کے رکھوالے قاتلوں، ڈاکووں اور ان کے سہولت کاروں کو پاتال کی گہرائیوں سے نکال لائیں گے۔ آر پی او آفس سے جاری بیان میں انہوں نے ریجن کے چاروں اضلاع ڈی جی خان، مظفر گڑھ، لیہ اور راجن پور کےپولیس افسران کو اس گینگ کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی۔ آر پی او فیصل رانا نے کہا کہ ’قاتلوں اور ڈاکووں کے خلاف اس بڑے آپریشن کی کامیابی کی یہ بھی ضمانت ہے کہ ہمیں قانون پسند عوام کی نہ صرف حمایت حاصل ہے بلکہ قانون پسند شہری قانون شکنوں کے خلاف اس آپریشن میں ہمارا پشتی بان ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جس طرح کی مربوط حکمت عملی طے کی ہے اس پر عمل درآمد سے ہر قانون شکن قاتل اور ڈاکو کا قانون کی گرفت میں آنا لازمی اور ناگزیر ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کےتمام اداروں نے قانون شکنوں کے خلاف معلومات اور اطلاعات کے تبادلے کے بعد نتیجہ خیز آپریشن شروع کیا ہے جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ قانون کی کامیابی کی منزل کو قریب سے قریب تر کر رہا ہے۔ آپریشن میں شامل ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ لادی گینگ کے قبضے سے خادم حسین نامی مغوی کو مقامی سیاسی شخصیات کی مدد سے بازیاب کرالیا گیا ہے جب کہ دو مقتولین کے ورثا کو تحفظ فراہم کرنے کےلیے الگ مقام پر رکھا گیا ہے اور بازیاب کرائے گئے مغوی کو پولیس نے اپنے پاس محفوظ رکھا ہوا ہے۔ جب کہ گینگ کی گرفتاری کےلیے آپریشن جاری ہے تاکہ لادی گینگ کے تمام اراکین کو گرفتار کیا جائے۔ امید ہے جلد ہی رینجر اور پولیس اہلکاروں کے گھراؤ سے گینگ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوجائے گا۔

Related Articles

Back to top button