فوج پر لگنے والے کرپشن کے الزامات کی حقیقت کیا ہے؟

 

پاکستان میں سیاستدانوں کی کرپشن کے حوالے سے ہمیشہ بحث چلتی رہی ہے لیکن گزشتہ کچھ مہینوں سے فوج سے تعلق رکھنے والے افراد پر بھی کرپشن کا الزام لگایا جا رہا ہے۔فوج میں کرپشن کے الزامات اور ان کی تردید کوئی نیا موضوع نہیں تاہم سوشل میڈیا پر مباحثوں نے اس کی نوعیت تبدیل کر دی ہے۔ عمران خان کے فوج میں کرپشن سے متعلق حالیہ بیان نے اس معاملے کو ایک بار پھر اجاگر کردیا ہے۔ فوج کے حامی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج میں کرپشن کے الزامات محض منفی پراپیگنڈہ ہے اور یہ کہ اس ادارے کا اندرونی نظم و ضبط اتنا مضبوط ہے کہ اس میں کرپشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسری جانب ناقدین کا دعویٰ ہے کہ تمام اداروں کی طرح فوج میں بھی کرپشن موجود ہے اور احتساب کا نظام اتنا مضبوط نہیں جتنا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے۔

دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف اپنے محسن سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر کھل کر کرپشن سمیت ملکی سیاست میں مداخلت کے الزامات لگا رہی ہے۔ پی ٹی آئی قیادت اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے جنرل قمر جاوید باجوہ پر پہلے ہی بہت تنقید کررہی تھی تاہم اب روزنامہ جنگ کی ایک رپورٹ کے مطابق عمران خان نے کہا ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد فوج میں کرپشن کرنے والوں کو پکڑیں گے۔ عمران خان کے اس بیان سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ فوج میں بھی کرپشن ہے اور یہ کہ ان کا احتساب بھی نہیں ہورہا۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے روزنامہ جنگ کی اس خبر کی سختی سے تردید کی ہے اور پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عمران خان نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ تاہم تحریک انصاف کا یہ بیان سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے اور اس پر کئی حلقوں میں بحث بھی ہو رہی ہے۔ اس بحث کا محور یہ ہے کہ آیا فوج میں کرپشن ہے بھی یا نہیں اور اگر ہے تو کیا فوجی افسران کا احتساب ہو سکتا ہے یا نہیں۔

معروف مصنفہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ یہ دعویٰ کرنا صحیح نہیں کہ فوج میں کرپشن نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا، ”میڈیکل کے شعبے سمیت ہتھیاروں اور غذائی اشیاء سمیت جہاں کہیں بھی سپلائی کا پہلو ہے وہاں کرپشن کا عنصر بھی شامل ہے۔ بالکل اسی طرح جب بھی فوج کو زیادہ اختیارات دئیے جاتے ہیں اور مختلف علاقوں میں بھیجا جاتا ہے تو وہاں بھی کرپشن بڑھتی ہے، جیسے کہ کراچی میں رینجرز رکشوں اور ویگنوں سے لے کر کئی طرح کے کاروبار چلا رہی ہے۔‘‘ عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ عمران خان سمیت اگر کوئی بھی اس کرپشن کو ختم کرنا چاہتا ہے تو اس کو سپلائی کا یہ عنصر پارلیمنٹ کے ماتحت لانا پڑے گا۔ ”نواز شریف نے ہتھیاروں کی سپلائی پارلیمنٹ کے اختیار سے نکال دی تھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمنٹ کو بااختیار بنایا جائے اور ذوالفقار علی بھٹو نے احتساب کا جو ڈھانچہ کھڑا کیا تھا، جس کی روح کو جنرل ضیاء کے دور میں ختم کر دیا گیا تھا، اس کو مزید مضبوط کیا جائے۔‘‘ پارلیمان کو فوج کے مالی امور کی نگرانی کا مؤثر اختیار حاصل ہونا چاہیے

پاکستان میں کئی حلقوں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں کئی فوجی افراد یا گھرانے ایسے رہے ہیں جو فوج میں شمولیت سے پہلے سماج کے غریب طبقے سے تھے لیکن آج ان کی اولادیں ارب پتی بنی ہوئی ہیں۔ سابق فوجی سربراہ جنرل ایوب خان، جنرل ضیا، جنرل اشفاق پرویز کیانی اور اب جنرل باجوہ ان چند فوجی افسران میں سے ہیں، جن کے خاندان اس حوالے سے تنقید کی زد میں آتے ہیں۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر عمار علی جان کا کہنا ہے کہ کرپشن کی پیمائش کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ فوج سے تعلق رکھنے والے مختلف افراد کا طبقاتی پس منظر دیکھا جائے اور یہ بھی دیکھا جائے کہ یہ کس طرح تبدیل ہوا۔انہوں نے بتایا، ” فوجی افسران کی تنخواہیں اتنی نہیں ہوتی کہ ان کی اولادیں ارب پتی بن جائیں۔ جنرل عاصم سلیم باجوہ، جنرل مشرف، جنرل کیانی کے بھائی اور جنرل باجوہ سمیت کئی فوجی افسران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق یا تو متوسط طبقے سے تھا یا پھر سماج کہ غریب طبقات سے تھا لیکن آج مبینہ طور پر ان کی اولادوں کے پاس دولت کی ریل پیل ہے اور وہ ارب پتی بنے ہوئے ہیں۔‘‘ڈاکٹر عمار جان سوال کرتے ہیں کہ جتنی فوجی افسران کی تنخواہیں ہیں، اتنی تنخواہ میں کیا ان کی اولادیں ارب پتی بن سکتی ہیں۔

ڈاکٹر عمار جان کے مطابق بحریہ کے سابق سربراہ منصورالحق ملک اور این ایل سی سمیت کئی ایسے اسکینڈلز ہیں، جس میں فوج سے تعلق رکھنے والے افراد کے ملوث ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، ”ان کا احتساب بھی نہیں ہو سکا کیونکہ سیاستدانوں میں اتنی سکت نہیں ہیں کہ وہ ان کا احتساب کر سکیں۔‘‘

تاہم پاکستان کے طاقتور اداروں کا دفاع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کو بد نام کرنے کے لیے اس طرح کا پراپیگنڈا کیا جاتا ہے تاکہ دشمن کے عزائم کو کامیاب بنایا جاسکے۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ میجر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ”میرے خیال سے یہ صرف فوج کے خلاف دشنام طرازی ہے ورنہ جہاں تک شفافیت کا تعلق ہے بحثیت ادارہ فوج کی شفافیت میں ریٹنگ سب سے اوپر ہے۔‘‘ اس سابق فوجی افسر کا مزید کہنا تھا، ’’ پاکستان آرمی ملک کا وہ واحد ادارہ ہے، جہاں ایک چھوٹے سے پرزے سے لے کر بڑے ہتھیار خریدنے تک ہر معاملے کی بہت کڑی جانچ پڑتال ہوتی ہے۔ محکمے کی اندورنی کمیٹیاں اور اکاؤنٹنٹ جنرل اس کی سخت نگرانی کرتے ہیں۔ ‘‘اس میجر کا دعویٰ تھا کہ بھارت میں ہتھیاروں کی خریداری کے حوالے سے کئی اسکینڈلز رونما ہوئے۔ تاہم بقول ان کے پاکستان میں اس طرح کا کوئی اسیکنڈل سامنے نہیں آیا۔ انہوں نےکہا، ”بھارت میں جارج فرنینڈس کی وزارت کے دوران طیاروں کی خریداری کے حوالے سے بہت کرپشن ہوئی اور بعد میں رافیل طیاروں کے علاوہ کئی دفاعی معاہدوں میں بھی بدعنوانی کے الزامات لگے کیونکہ وہاں پر یہ خریداری وزراء کے زیر انتظام ہوتی ہے۔ پاکستانی فوج پر ایسا کبھی کوئی الزام نہیں لگا کیونکہ یہ ادارہ خریداری کے حوالے سے آخری حد تک شفافیت کو یقینی بناتا ہے

گیم چینجر سی پیک پراجیکٹ سست روی کا شکار کیوں؟

Related Articles

Back to top button