ارشد کیس میں وقاراورخرم کا اپنے فونز کا ڈیٹا دینے سے انکار


معلوم ہوا ہے کہ کینیا میں قتل ہونے والے صحافی ارشد شریف کے مشتبہ میزبان بھائیوں وقار احمد اور خرم احمد نے پاکستانی تفتیش کاروں کے مطالبے کے باوجود اپنے موبائل فونز کا ڈیٹا دینے سے انکار کر دیا ہے۔ حال ہی میں کینیا کا دورہ کرنے والی دو رکنی پاکستانی تحقیقاتی ٹیم نے دونوں بھائیوں کو ارشد شریف قتل کیس میں مشکوک قرار دیتے ہوئے ان کے موبائل فونز کا ڈیٹا مانگا تھا تاکہ پتہ لگایا جا سکے کہ وہ اس افسوسناک واقعے سے پہلے اور بعد میں کن لوگوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ تاہم وقار اور خرم نے اپنے فونز کا ڈیٹا دینے سے انکار کردیا ہے اور کینیا کی پولیس بھی اس سلسلے میں پاکستانی تفتیش کاروں کے ساتھ تعاون کرنے سے انکاری ہے۔ دونوں بھائیوں کے انکار کے بعد پاکستانی تفتیش کاروں کا یہ شک یقین میں بدلتا جارہا ہے کہ ارشد شریف کے قتل میں دونوں بھائیوں کا کردار مشکوک ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ خود اس واردات میں شامل ہوں۔ وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ خان نے بھی جیو نیوز کے پروگرام میں شاہ زیب خانزادہ کو بتایا ہے کہ وقار اور خرم پاکستانی حکام سے تعاون کرنے سے انکاری ہیں اور اب اس تجویز پر غور کیا جارہا ہے کہ انٹرپول کہلانے والی انٹرنیشنل پولیس کے ذریعے ان کے ریڈوارنٹس حاصل کر کے انہیں گرفتار کروایا جائے۔

دوسری جانب اسلام آباد کے پمز ہسپتال کی انتظامیہ نے ارشد شریف کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ان کے جسم پر تشدد کے نشانات پائے جانے کی تصدیق کی ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ خان نے بھی کہا ہے کہ جس طرح کے تشدد کے نشانات ارشد شریف کے جسم پر موجود ہیں ان سے لگتا ہے کہ انھیں قتل سے پہلے ٹارچر کیا گیا تھا۔ تاہم انھوں نے مقتول صحافی کے خاندان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ان زخموں کی تفصیلات نہیں بتائیں گے۔وزیرداخلہ نے کہا کہ یہ بیانیہ غلط ہے کہ ارشد کا قتل غلط شناخت کی بنیاد پر ہوا۔ انکے مطابق کینیا میں پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کو ایسا کچھ نہیں ملا۔ تحقیقاتی ٹیم نے دیکھا کہ کینیا میں جہاں یہ قتل ہوا وہ ایک ویران سڑک ہے، جہاں دن بھر میں تفتیش کاروں کو صرف تین گاڑیاں گزرتی نظر آئیں۔ وہاں کوئی پولیس ناکہ بھی نہیں تھا۔ وزیر داخلہ کے مطابق وقار اور خرم اس قتل میں اہم کردار ہیں، جو اپنے فون کا ڈیٹا دینے سے بھی انکاری ہیں۔ ان کے مطابق ہو سکتا ہے کہ پہلے ارشد شریف پر ٹارچر کیا گیا ہو اور پھر پولیس کو ساتھ ملا کر فائرنگ میں قتل کا ڈھونگ رچایا گیا ہو۔ وزیر داخلہ کے مطابق کینیا پولیس پیسے پکڑ کر کرائے کے قاتل کا کام بھی کرتی ہے۔

دوسری جانب پمز ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد مسعود نے بتایا کہ پوسٹ مارٹم کرنے والی ٹیم کے سربراہ نے ارشد شریف کے جسم پر تشدد کے 12 نشانات کی نشاندہی کی ہے۔ ڈاکٹر خالد کا کہنا ہے کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق ارشد کی دائیں کلائی پر تشدد سے زخم کے نشانات ملے، ان کے سیدھے ہاتھ کی چار انگلیوں کے ناخن بھی موجود نہیں تھے، ارشد کے بائیں ہاتھ کی انگلی پر بھی زخم کا نشان ملا، اسی طرح مقتول صحافی کے جسم پر 12 زخموں کے نشانات ملے، لیکن ابھی ارشد کے جسم سے لیے جانے والے اجزا کا فرانزک ہو رہا ہے جن کی رپورٹ سامنے آئے گی تو پتا چل جائے گا کہ مقتول پر تشدد ہوا تھا یا پھر کینیا حکام نے میڈیکل رپورٹ تیار کرنے کے لئے اسکے جسم کے مختلف حصوں کے نمونے لیے جو کہ زخم دکھائی دے رہے ہیں۔

ڈائریکٹر پمز ہسپتال کا کہنا تھا کہ ہمیں کینیا میں ہوئے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نہیں ملی، ہمیں نہیں پتا کہ انھوں نے پوسٹ مارٹم کے لیے جسم کے کس حصے کو استعمال کیا، جب ہم نے ڈیڈ باڈی دیکھی تو ارشد کی چار انگلیوں کے ناخن نہیں تھے، ہو سکتا ہے کینیا میں پوسٹ مارٹم کے دوران ناخن نکالے گئے ہوں، لیکن میڈیکل کے لیے تو ایک ناخن سے بھی کام ہو سکتا تھا۔

Related Articles

Back to top button