حکومت اور PTM مذاکرات قیدیوں کی رہائی سے مشروط


پشتون تحفظ موومنٹ نے بامعنی مذکرات کے آغاز سے قبل حکومت سے اپنے گرفتار ساتھیوں کی رہائی اور ان پر درج بے بنیاد مقدمات ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کا کہنا ہے کہ حکومت با ضابطہ مذاکرات سے قبل اعتماد سازی کیلئے اقدامات کرتے ہوئے پی ٹی ایم کے رہنماؤں کو رہا کرے تاکہ باقاعدہ گفتگو کا آغاز کیا جا سکے۔
خیال رہے کہ پی ٹی ایم اور حکومت کے درمیان معاملات طے کرنے کے لیے خفیہ مذاکرات جاری ہیں. تاہم اس حوالے سے کوئی تفصیلات سامنے نہیں آیئں۔ صرف اتنا پتا چلا ہے کہ مذاکرات کا فیصلہ حکومت نے کیا تھا اور اس کا بنیادی مقصد پی ٹی ایم کو قومی دھارے میں لانا ہے۔ اب پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کا حکومت سے مذاکرات بارے کہنا ہے کہ ابھی ان کے صرف رابطے اور ملاقاتیں ہوئی ہیں اور باضابطہ مذاکرات ابھی شروع نہیں ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم نے حکومت سے باضابطہ مذاکرات سے قبل اعتماد سازی کے لیے چند مطالبات سامنے رکھے ہیں جن میں ان کے قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے۔ لیکن حکومت کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ حکومت خیر سگالی کے طور پر پی ٹی ایم کے گرفتار کارکنان کو رہا کرے اور ان کے خلاف درج مقدمات کو ختم کیا جائے۔
منظورپشتین نے مزید کہا کہ بنوں میں ہمارے چند دوست جیل میں ہیں۔ اس طرح اسلام آباد سے بھی ہمارے ایک دوست مولانا اعجاز غائب ہیں۔ لہذا ہمیں عجیب لگے گا کہ ہمارے دوست بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات کی بنیاد پر قید میں ہوں اور دوسری جانب ہم حکومت سے مذاکرات کر رہے ہوں۔ منظور پشین نے واضح کیا کہ صرف دوستوں کی رہائی کے بعد ہی باضابطہ مذاکرات شروع ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اور حکومتی مذاکراتی کمیٹیوں کے غیر رسمی مذاکرات ہوئے ہیں۔ امید ہے باضابطہ مذاکرات بھی جلد شروع ہو جائیں گے۔‘پی ٹی ایم کےقیدیوں کی رہائی کے مطالبے پر حکومتی رد عمل بارے نوجوان پختون رہنما نے کہا کہ حکومت تو کہتی ہے کہ وہ ان مسائل کے حل کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہی ہے۔
تاہم ایسی حکومتی کوششوں کے نتائج اب تک سامنے نہیں آ پائے۔ مذاکرات کے آغاز میں کتنا وقت لگ سکتا ہے؟ اس بارے میں منظور پشتین نے کہا کہ فل الحال اندازہ لگانا مشکل ہے۔ان کے مطابق حکومت نے ہمیں مذاکرات کی پیش کش کی جو ہم نے قبول کی ہے۔ یہ سلسلہ ابھی ٹوٹا نہیں ہے پر اتنا تیز بھی نہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ ماضی میں بھی کئی مرتبہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرچکی ہے جو کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوئے۔ منظور پشتین کا الزام ہے کہ اس کی وجہ حکومت کی غیرسنجیدگی تھی۔ ’ہم اپنی جدوجہد سے پر امید ہیں۔ ہم اپنے پختونخوا وطن میں امن کے لیے کوششیں کرتے رہیں گے۔ انشا اللہ اس کے اچھے نتائج ہوں گے ہمیں اپنی جدوجہد پر یقین ہے۔‘
خیال رہے کہ 2018 میں بھی حکومت اور پی ٹی ایم کے مذاکرات ہوئے تھے لیکن اس وقت پی ٹی ایم کے بعض کارکنوں کی مار پیٹ اور ان کے خلاف پرچے کاٹنے کی وجہ سے ناکام ہو گئے تھے۔ اسی طرح 2019 میں پی ٹی ایم دوبارہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھی تو وزیرستان میں خڑ کمر چیک پوسٹ کا واقعہ پیش آگیا اور یہ سلسلہ ایک مرتبہ پھر رک گیا۔ ماضی میں پی ٹی ایم کو شکایت رہی کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم بااختیار نہیں تھی، کیا اس مرتبہ کیا صورت حال مختلف ہے؟ اس کے جواب میں منظور پشتین کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت اس حوالے سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتے لیکن انہیں توقع ہے کہ مذاکرات سے قبل نے ہمارے انہوں مطالبات کا جائزہ ضرور لیا ہوگا اور انہیں کیسے حل کرنا ہے اس بارے حکومت ضرور اقدامات کرے گی۔ منظور پشتین کا کہنا تھا کہ ملک میں کرونا کی وبا کی وجہ سے ان کی پارٹی سرگرمیاں معطل تھیں تاہم اب ایک بار پھر ہم متحرک ہو چکے ہیں چند روز قبل ہم نے وانا، جنوبی وزیرستان میں ایک بڑا جلسہ منعقد کیا جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ خاموشی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے نہیں بلکہ کووڈ 19 کی وجہ سے تھی۔‘
اطلاعات کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے سے پشتون تحفظ موومنٹ تنظیم سازی کر رہی ہے۔ تنظیم کا پہلا آئین بھی تیاری کے مراحل میں ہے جبکہ اس کے تنظیمی ڈھانچے میں بھی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ منظور پشتین کے مطابق وہ تنظیم کو مزید مضبوط بنانے اور ایسے ادارے قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جو عوام کی خدمت کرسکیں۔ ’ہم عوام کی امن لانے اور ان کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے مدد دے سکیں۔ ہم پی ٹی ایم کے سیاسی نظریے کو مزید مضبوط بنانے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔‘
دوسری طرف حکومتی ذرائع کے مطابق پی ٹی ایم کے ساتھ مذاکرات کے لیے بنائی گئی کمیٹی تین ارکان پر مشتمل ہے، جن میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزیر دفاع پرویز خٹک اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی شامل ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی ایم نے مذاکرات کے لیے آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، جس میں منظور پشتین، رکن پارلیمنٹ محسن داوڑ اور علی وزیر سمیت دیگر رہنما شامل ہیں۔ ذرائع نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اب تک حکومت اور پی ٹی ایم کمیٹی کے مابین مذاکرات کی ایک سے زائد نشستیں ہوچکی ہیں۔
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل وزیر دفاع پرویز خٹک نے بیان جاری کیا تھا کہ حکومت پی ٹی ایم کے ساتھ مذاکرات کی خواہش رکھتی ہے جس کے بعد پی ٹی ایم کی قیادت نے پریس کانفرنس کر کے پرویز خٹک کے بیان کو خوش آئند قراد دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدگی سے اقدامات اٹھائے۔ پی ٹی ایم ذرائع کے مطابق پی ٹی ایم کے رہنما حنیف پشتین پر درج مقدمات کو ختم کرنا بھی انہیں مذاکرات کے مرہون منت ہے۔ ان پر دفعہ 302 کے تحت درج مقدمہ بھی خارج کردیا جائے گا۔ حکومتی کمیٹی نے اپنے مطالبات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ پی ٹی ایم کسی بھی ریاستی ادارے کے خلاف نعرے بازی اور سوشل میڈیا ٹرولنگ نہیں کرے گی، تاہم اگر کہیں پر کسی ادارے کا افسر یا ملازم کوئی غیر قانونی قدم اٹھاتا ہے تو اس کی ذات کے خلاف بھرپور احتجاج کا حق ہوگا لیکن اس افسر کے ادارے کو اجتماعی طور پر نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button