ایازامیر کے بیٹے کے ہاتھوں مرنے والی سارہ کون تھی؟


کتابوں سے دوستی رکھنے والی اعلیٰ تعلیم یافتہ، باصلاحیت خاتون سارہ انعام کے قتل سے ان کے خاندان کے علاوہ انکے دوست بھی صدمے سے دوچار ہیں، اپنے بچوں سے دوست بن کر زندگی گزارنے کی خواہش لیے دنیا سے رخصت ہونے والی سارہ انعام کی دوست سٹیفن حبیب نے بتایا کہ میری اُس سے پہلی ملاقات 2011 میں ہوئی تھی جس کے بعد ہماری دوستی گہری ہوتی چلی گئی، وہ پُرکشش شخصیت کی حامل ایک بے ضرر انسان تھی جسے اُمید تھی کہ جب اسکے بچے ہوں گے، تو وہ انکے دوست ہوں گے۔ سارہ انعام کی ایک اور دوست سارہ دناوی کہتی ہیں کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ سارہ اس طرح قتل ہو جائے گی، بہت سارے لوگوں کو شاید ابھی بھی اندازہ نہیں ہے کہ سارہ کتنی باصلاحیت اور پڑھی لکھی خاتون تھی، ہم تب تک کھڑے رہیں گے جب تک انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو جاتے۔

سارہ انعام نے کینیڈا کی یونیورسٹی آف واٹر لو سے 2007 میں آرٹس اور اکنامکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی، یونیورسٹی آف واٹر لو کو دنیا بھر میں اکنامکس کی تعلیم کے لیے بہتر تعلیمی ادارہ سمجھا جاتا ہے، تعلیم مکمل ہونے کے بعد سارہ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز جونیئر ایویلیوئیشن افسر کی حیثیت سے کینیڈا ہی سے کیا تھا۔ 2010 میں سارہ نے ابوظہبی میں ایک بزنس کنسلٹینسی کمپنی میں شمولیت اختیار کر لی جہاں وہ چار سال تک بحیثیت کنسلٹنٹ اور بعدازاں سینئر کنسلٹنٹ خدمات انجام دیتی رہیں، اس کے بعد انہوں نے دوبئی کے ادارے ’’ایجوکیشن اینڈ نالج‘‘ میں شمولیت اختیار کی، اسی منصوبے کے تحت پہلی مرتبہ ایک چارٹرڈ سکول کا قیام عمل میں لایا گیا۔

2021 میں سارہ نے دبئی کے ایک معاشی ادارے میں شمولیت اختیار کر لی جہاں ان کی بنیادی ذمہ داری سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے پالیسیاں ترتیب دینا تھا۔ اپنے شوہر کے ہاتھوں قتل ہونے والی سارہ کے بارے میں انکی سہیلی سارہ دناوی نے کہا کہ جب اُن کی مرحومہ سے ملاقات ہوئی تو وہ تب اپنا مستقبل بہتر بنانے کی جدوجہد کر رہی تھیں، وہ اپنی زندگی میں ناصرف خود کامیاب ہوئیں بلکہ کئی دوستوں کو بھی بہتر مستقبل کی تعمیر کے مواقع فراہم کیے، وہ محنتی، پُرجوش اور ذمہ دار خاتون تھیں جو اپنے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتی تھیں۔

سارہ کے ایک اور دوست سٹیفن کہتے ہیں کہ ’متحدہ عرب امارات میں ہم سب لوگ کام کی تلاش اور بہتر زندگی گزارنے کے لیے موجود تھے۔ جہاں ہم لوگ اپنے خاندانوں سے دور ہوتے تھے وہیں سارہ انعام ہمارا سہارا ہوتی تھیں۔
ان کے مطابق سارہ انعام کی بدولت ہمارے دس دوستوں کا گروپ بن گیا جو اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے سلسلے میں دنیا کے مختلف ممالک میں موجود ہیں، یہ فقط ایک گروپ نہیں بلکہ ایک خاندان تھا جسے ہم نے ’دی فیملی‘ کا نام دے رکھا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ سارہ کتابوں سے محبت کرتی تھیں، وہ فارغ ہوتیں تو اُن کا کام صرف اور صرف پڑھنا ہوتا تھا۔ سارہ کو سفر کرنا اور مختلف ثقافتوں کو تلاش کرنا پسند تھا۔ وہ مختلف زبانیں سیکھتی رہتی تھیں، سٹیفن نے بتایا کہ ہمارے دوستوں کے گروپ نے ایک ساتھ بہت زیادہ سفر کیے ہیں۔ عمان سے لبنان اور ترکی تک، ہم لوگ مختلف میوزیمز اور مختلف مقامات پر ساتھ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ سارہ ہمیشہ اپنے والدین کو خوش رکھنا اور انھیں محبت اور سکون فراہم کرنا چاہتی تھیں تا کہ اُن کے والدین اُن پر فخر کر سکیں، وہ اکثر اپنے والدین اور دوستوں کو ملنے کینیڈا اور پاکستان آتی جاتی رہتی تھیں، سارہ اپنی والدہ کے حوالے سے بہت زیادہ حساس تھیں۔

سارہ دناوی کہتی ہیں کہ عمر کے اس حصے میں اب سارہ اپنی فیملی لائف شروع کرنا چاہتی تھیں، وہ بھی چاہتی تھیں کہ کسی کو چاہیں اور اُنہیں بھی کوئی بہت محبت دے، میں جانتی ہوں کہ اگر وہ ماں بن جاتی تو وہ کتنی عظیم ماں ہوتی۔ سٹیفن کہتے ہیں کہ سارہ کی بنائی ہوئی ’دی فیملی‘ بکھر چکی ہے۔ اب شاید اُن کا گروپ اُس طرح اکٹھا نہ ہو سکے جس طرح پہلے ہوتا تھا مگر اب ’دی فیملی‘ کا ایک ہی مقصد رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ سارہ انعام کو انصاف ملے، اس کے والدین کو انصاف ملے۔ اسی لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم لڑیں گے اور انصاف ملنے تک لڑائی جاری رکھیں گے۔ سارہ دناوی کہتے ہیں کہ اب سارہ واپس نہیں آ سکتی، مگر مجھے اُمید ہے کہ اسے جلد از جلد انصاف ملے گا۔

Related Articles

Back to top button