بھارتی اشتعال انگیزی بڑھ گئی، لانچ پیڈ بارے الزامات بے بنیاد ہیں

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل بابر افتخار نے بھارت کے پاکستان پر لانچ پیڈ کے الزامات کو غلط اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے عالمی مبصرین کو دورہ کرنے کی دعوت دے دی۔
نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بھارتی قیادت کی جانب سے پاکستان پر بے بنیاد الزام لگائے جارہے ہیں، لانچ پیڈ سے متعلق بھارتی بیانات سراسر غلط اور بے بنیاد ہیں اور اس کے لیے ایک موثر میکانزم اقوام متحدہ کے مبصرین کا موجود ہے، ہم انہیں دعوت دیتے ہیں کہ آئیں دیکھیں کہ کہاں ہیں لانچ پیڈز، ہم انہیں دورہ کرنے کی پوری اجازت دیتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت کا وطیرہ ہے جب بھی کسی مسئلے میں پھنستا ہے تو الزام پاکستان پر لگاتا ہے اور اس سلسلے میں پچھلے دنوں پاکستان کی اقلیت کو ہدف بنانے کے لیے بے بنیاد پروپیگنڈا بھی کیا گیا تاہم اسے کسی نے قبول نہیں کیا۔بھارت کی جانب سے پاکستان کی کمیونکیشن اسٹریٹجی کی نقل کرنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاک فوج کی کمیونکیشن اسٹریٹجی وقت کے ساتھ ساتھ بہت بہتر ہوئی ہے اور اس کا مختلف فورمز پر اعتراف کیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پچھلے دونوں ہونے والے واقعات میں دنیا نے ہماری کمیونکیشن اسٹریٹجی کا اعتراف کیا ہے اور اگر بھارت ہماری اسٹریٹجی کی نقل کر رہا ہے تو اسے کرنے دیں۔
بھارت میں اقلیتوں کو ان کے حقوق نہ دیے جانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج اور سیاست میں سیفرونائزیشن ایک حقیقت ہے جسے پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں اقلیت کے جو حالات ہیں اس پر دنیا کو توجہ دینی چاہیے۔کورونا وائرس وبا کے سرحدوں پر فوج کی تعیناتیوں کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کی مغربی و مشرقی سرحد پر تعیناتی اسی طرح ہے جبکہ افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام بھی پہلے کی طرح جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان کی مشرقی سرحد پر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے ہم وہاں مزید متحرک ہوگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر صورتحال انتہائی سنگین ہے، بھارت کی جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے ان خلاف ورزیوں کا مقصد ذرائع ابلاغ پر بیانات کے ذریعے عالمی برادری کی توجہ اپنی داخلی صورتحال سے ہٹانا ہے۔
واضح رہے کہ دفتر خارجہ کے مطابق اب تک بھارت نے رواں سال کے دوران 957 مرتبہ لائن آف کنٹرول اور ورکند باؤنڈری پر بلااشتعال جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز لائن آف کنٹرول کے باغ سر سیکٹر میں بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 6 افراد شدید زخمی ہو گئے تھے جس پر پاکستان نے بھارتی سفیر کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔اس کے علاوہ 28 اپریل کو بھی آزاد کشمیر کے علاقے رکھ چکری سیکٹر پر بھارتی قابض فورسز کی بلااشتعال فائرنگ کی وجہ سے 2 خواتین، 45 سالہ رقیہ بیگم اور 60 سالہ سرور بی بی، شدید زخمی ہوگئی تھیں جس کے اگلے روز پاکستان نے بھارتی سفیر کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔اس حوالے سے جاری بیان کے مطابق رکھ چکری سیکٹر پر بھارتی قابض فورسز کی بلااشتعال فائرنگ کی وجہ سے 2 خواتین، 45 سالہ رقیہ بیگم اور 60 سالہ سرور بی بی، شدید زخمی ہوگئی تھیں۔سال 2019 میں بھارتی فوج کی جانب سے ایل او سی پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 59 افراد جاں بحق جبکہ 2 سو 81 زخمی ہوئے تھے۔قبل ازیں 17 مارچ کو بھارت کی طرف سے وادی نیلم میں لائن آف کنٹرول کے شاہ کوٹ سیکٹر پر بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں پاک فوج کے 20 سالہ سپاہی واجد علی نے جام شہادت نوش کیا تھا۔14 فروری کو بھارتی فوج نے ایل او سی پر بلااشتعال فائرنگ کرکے آزاد کشمیر کے رکھ چکری اور نیزاپیر سیکٹر میں آبادی کونشانہ بنایا تھا جہاں ایک شہری شہید اور خاتون زخمی ہوگئیں تھیں۔
خیال رہے کہ ایل او سی پر جنگ بندی کے لیے 2003 میں پاکستان اور بھارتی افواج کی جانب سے ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے تاہم اس کے باوجود جنگ بندی کی خلاف ورزی کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔
پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی خصوصی ہدایات پر فوج کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سول انتظامیہ کی معاونت کر رہی ہے۔جنرل بابر افتخار نے بتایا کہ افواج پاکستان نے حکومت کے احکامات پر عمل در آمد اور قانون نافذ کرنے کے لیے بیک اپ کے طور پر ملک بھر میں تعینات کیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ فوج کے ریسرچ اداروں نے ذاتی تحفظ کی چیزیں جیسے این 95 ماسک کو مقامی سطح پر بڑے پیمانے پر تیار کرنے کے کام کا آغاز کردیا ہے۔نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’ہم اب اس مقام پر ہیں کہ ڈٰیٹا کے حوالے سے ہمارے پاس بڑی تصویر مل رہی ہے جو بہت واضح ہے اور اب ہم ڈیٹا کے مطابق ترجیحی اہداف کا تعین کرسکتے ہیں‘۔ان کا کہنا تھا کہ صحت ہمیشہ سے قومی سلامتی کا مسئلہ رہا ہے، جب تک کورونا کی ویکسین ایجاد نہیں ہوجاتی ہمیں سماجی دوری کو معمول بنانا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ کورونا میں ابھی بہت کچھ مزید آنا باقی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جب تک اس کی کوئی ویکسین ایجاد نہیں ہوجاتی معاشرے میں بہت تبدیلی آئے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button