سام سنگ کمپنی پر توہین اسلام کا الزام کیوں عائد ہوا؟


وائی فائی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین عام طور پر اپنے رائوٹر کا نام اپنے نام پر رکھتے ہیں جبکہ کاروباری حضرات اپنی کمپنی کا نام استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن کراچی کے شاپنگ مال میں معروف موبائل کمپنی ’’سیم سنگ‘‘ کا انٹرنیٹ وائی فائی تب تنازعے کا باعث بن گیا جب اس کے نام کو توہین مذہب کے مترادف قرار دے دیا گیا۔

سیم سنگ کا وائی فائی نام پتہ چلنے پر تحریک لبیک کے کارکنان پر مشتمل ہجوم نے مارکیٹ میں توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ جب معاملہ پولیس تک پہنچا تو اس نے سیم سنگ کمپنی کے منیجر سمیت 10 مظاہرین کو گرفتار کرلیا، ایس ایس پی ساؤتھ کراچی پولیس اسد رضا کے مطابق سام سنگ کے منیجر کو مقدس شخصیات کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے پر گرفتار کیا گیا، دوسری طرف پولیس نے سیم سنگ کے تین وائی فائی راؤٹرز ضبط کرتے ہوئے مزید تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔

تحریک لبیک والوں نے الزام عائد کیا ہے کہ کراچی صدر میں واقع سٹار سٹی مال میں سیم سنگ کے دفتر میں انٹرنیٹ کے لیے لگائے گئے دو وائی فائی ناموں سے ’صحابہ کی شان میں گستاخی‘ ہوئی اور ’مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروع‘ کیے گئے۔

سوشل میڈیا پر گردش کرتی کئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہاتھوں میں ڈنڈے تھامے تحریک لبیک کے مشتعل مظاہرین الیکٹرانکس کی دکانوں کے باہر توڑ پھوڑ کر رہے ہیں اور سام سنگ کے تشہیری سائن بورڈز کو گرایا جا رہا ہے۔ کراچی پولیس ترجمان کے مطابق معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ وائی فائی ڈیوائس لگانے کا ذمہ دار کون تھا۔ سیم سنگ کی جن وائی فائی ڈیوائسس سے مسئلہ پیدا ہوا اس کے تینوں راؤٹرز کو ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں بھجوادیا گیا ہے۔

اس واقعے کے ایک عینی شاہد عمر وقار کا کہنا ہے کہ کراچی صدر کی موبائل مارکیٹ میں جمعے کی صبح حالات تب کشیدہ ہونا شروع ہوئے جب یہ اطلاعات پھیلیں کہ موبائل کمپنی کے عملے میں سے کسی نے پیغمبر اسلام اور ان کے ساتھیوں کی مبینہ توہین کی ہے۔ اس واقعے کے ردعمل میں سینکڑوں مظاہرین جمع ہو گئے اور سیم سنگ کے دفتر میں توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ سیم سنگ کے عملے میں سے کچھ افراد کو مار پیٹ کے بعد پولیس کے حوالے کر دیا گیا، پولیس اور رینجرز کے موقع پر پہنچنے کے بعد سیم سنگ کی برانڈنگ اور لوگو پر ڈنڈے برسائے گئے اور انہیں اتار کر سڑک پر پھینک دیا گیا۔ عمر وقار نے بتایا کہ اس کے بعد پولیس اہلکاروں نے لاؤڈ سپیکر میں مظاہرین سے منتشر ہونے کی درخواست کی اور کہا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں لاٹھی چارج کیا جائے گا، اس دوران مارکیٹ کی تمام دکانیں بند کر دی گئی تھیں اور مظاہرین نے اطراف کی سڑکوں کو بلاک کر رکھا تھا۔

الیکٹرانکس کا کاروبار کرنے والے لقمان سلیمان نے پولیس کو بتایا کہ صبح ساڑھے دس بجے مارکیٹ پہنچنے پر انھیں بذریعہ واٹس ایپ ایک سکرین شاٹ موصول ہوا جس میں مختلف ناموں کے وائی فائی نظر آ رہے تھے، وائی فائی کے نام (میں) صحابہ کو گستاخانہ الفاظ سے تعبیر کیا گیا تھا، یہ سکرین شاٹ مارکیٹ کے دوسرے لوگوں کو بھی بذریعہ واٹس ایپ موصول ہوئے، مارکیٹ کے دیگر لوگ بھی جمع ہوگئے۔ صبح شروع ہونے والا احتجاج کا سلسلہ نماز جمعہ کے بعد بھی جاری رہا۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں بھی پھیلتی نظر آئیں جس میں لوگوں کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ تحریک لبیک کے کارکنان مبینہ طور پر سیم سنگ کے کسی کیو آر کوڈ کی وجہ سے ان پر توہین مذہب کا الزام لگا رہے ہیں۔ کراچی الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر رضوان عرفان کے مطابق وائی فائی ڈیوائس کے معاملے پر پولیس کی جانب سے کی گئی کارروائی کے بعد صورتحال اب قابو میں ہے اور سنیچر کو مارکیٹ کھول دی جائے گی۔

دودری جانب سیم سنگ پاکستان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کمپنی مذہبی جذبات کے حوالے سے غیر جانبدار ہے، اور اسکی کوشش ہے کہ وہ اپنے ویژن اور آپریشنز میں غیر مذاہب کا احترام یقینی بنائے۔ سیم سنگ پاکستان کے مطابق وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی ہے، اور اسے اپنے فرائض کا باخوبی ادراک ہے، اسی لیے کمپنی نے اس معاملے پر اندرونی تحقیقات شروع کر دی ہیں، دوسری جانب سیم سنگ نے اس مبینہ وائی فائی ڈیوائس کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے جس کے ساتھ اس کے عملے کو جوڑا گیا ہے۔

Related Articles

Back to top button