غیر ملکی کشتی ران گلگت میں کس چیز کے مزے لے رہے ہیں؟


پاکستان میں سیاحت کی غرض سے آئے ہوئے امریکی مہم جو گلگت کے دریاؤں میں ’وائٹ واٹر کیاکنگ’ کہلانے والی خطرناک کشتی رانی کے مزے لے رہے ہیں جس کے بعد اس امکان کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ یہ سپورٹس اب پاکستان میں بھی فروغ حاصل کرے گی۔

یاد رہے کہ ایک زمانے میں کھیل کا درجہ حاصل کرنے سے پہلے وائٹ واٹر کیاکنگ لوگوں کی نقل و حرکت کا ذریعہ ہوا کرتی تھی خصوصا جب دیگر ذرائع آمدورفت یعنی سڑکیں وغیرہ بارش یا برفباری سے بند ہو جایا کرتے تھے۔ مگر جدید دور میں اس نے مہم جوئی اور کھیل کی شکل اختیار کرلی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک جیسے امریکہ، کینڈا، اور برطانیہ میں یہ کھیل اب کافی مقبول ہو رہا ہے اور اسکی ایک جدید شکل اولمپکس میں بھی موجود ہے۔ وائٹ واٹر کیاکنگ کے سامان میں پلاسٹک کی کشتیاں اور چپو شامل ہیں جبکہ اس مہم جوئی کو وہی لوگ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں جو مشکل حالات میں دونوں بازوں کے ساتھ بہتے پانی میں کشتی کے دونوں طرف تیزی سے چپو چلانے کی صلاحیت رکھنے کے علاوہ ساتھ ماہر تیراک بھی ہوں۔ پانی کا بہاؤ اتنا تیز ہوتا ہے کہ کشتی کسی بھی وقت الٹ سکتی ہے لہذا جان بچانے کے لیے تیراک ہونا ضروری ہے۔

اس کھیل کے حفاظتی ساز و سامان میں پہلے کے مقابلے میں اب اضافہ ہو چکا ہے اور اب ہیلمٹ اور لائف جیکٹ وغیرہ بھی پاس ہونا ضروری ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ایسے کئی دریا موجود ہیں جو اس کھیل کے لیے نہایت موزوں ہیں لیکن ابھی تک پاکستان میں یہ کھیل نہیں کھیلا جارہا تھا۔ لیکن اب غیر ملکی مہم جو اس کھیل کے لیے پاکستان کا رخ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں گذشتہ چند برسوں میں غیر ملکیوں مہم جوؤں کی چھٹی ٹیم وائٹ واٹر کیاکنگ کے لیے آئی ہے۔ گلگت کے دریاؤں میں وائٹ خطرناک واٹر کیاکنگ کرنے والے امریکی مہم جووں کا کہنا ہے کہ انکا تجربہ شاندار رہا ہے اور وہ آئندہ بھی اس کھیل کا مزہ لینے پاکستان آتے رہیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستانی شمالی علاقہ جات کے بلند و بالا پہاڑ پوری دنیا کے مہم جوؤں کو اپنی طرف کھینچ لاتے ہیں، کیونکہ یہاں کے دریا اور پانی کے ذخائر بہت پر کشش ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان میں وائٹ واٹر کیاکنگ کا مزہ لینے والے امریکی مہم جو بنجمن لک کی زیر قیادت شمالی علاقہ جات میں موجود ہیں۔ بنجمن نے اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ سکردو سے گلگت تک دریائے سندھ کے پانیوں میں وائٹ واٹر کیاکنگ کی۔ بنجمن ور انکے ساتھی جب پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی کشتیوں پر خطرناک وائٹ واٹر کیاکنگ کر رہے تھے تو دیکھنے والے انگلیاں دانت میں دبا لیتے تھے۔ شمالی علاقہ جات میں بہنے والا دریائے سندھ ہو، دریائے گلگت یا دریائے کہنار، ان کی لہریں دور سے دیکھنے پر بہت خوبصورت لگتی ہیں۔ مگر ان کے قریب جانا انتہائی پُرخطر ہے اور غلطی سے بھی اس دریا میں گرنے والے ماہر ترین تیراک کے بچ نکلنے کے مواقع بہت ہی کم ہوتے ہیں۔

شمالی علاقہ جات کے ان دریاؤں کی لہریں کئی کئی فٹ بلند ہوتی ہیں۔ ان میں موجود نظر آنے اور نہ آنے والی بڑی بڑی چٹانیں اور تیز رفتار پانی لمحوں میں موت کا پیغام لے کر آتے ہیں۔ ان دریاؤں کے بڑے حصے میں کشتی رانی جیسے کھیل کھیلنا ممکن نہیں سمجھا جاتا ہے۔ تاہم بنجمن لک اور ان کے ساتھیوں، کوڈی بیچ، لوئس نورس اور برنارڈ اینگلمین نے ان سب خطروں کا مقابلہ کامیابی سے کیا ہے۔

پاکستان میں وائٹ واٹر کیاکنگ کے انتظامات کرنے والی ٹور کمپنی گولڈن پیک ٹور کے مینجنگ ڈائریکٹر علی انور خان کے مطابق پاکستان میں ابھی وائٹ واٹر کیاکنگ کے بارے میں زیادہ آگاہی موجود نہیں ہے۔ ‘ہم نے چند سال پہلے گلگت بلتستان محکمہ ٹورازم کے ساتھ مل کر مہم شروع کی جس کے نتیجے میں وائٹ واٹر کیاکنگ کے مہم جوؤں کی ٹیم کو پاکستان لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘ علی انور خان کے مطابق ابھی تک پاکستان میں اس مہم جوئی یا کھیل کے حوالے سے کوئی زیادہ ماہر افراد موجود نہیں ہیں جس وجہ سے غیر ملکی اپنی مدد آپ ہی کے تحت تمام انتظام کر رہے ہوتے جبکہ انکی کمپنی صرف لاجسٹک مدد سپورٹ فراہم کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں اس کھیل کو باقاعدہ اختیار کر لیا جائے اور مقامی طور پر اس کے ماہرین تیار کر لیں تو اس کے نتیجے میں غیر ملکی مہم جوؤں کی بڑی تعداد پاکستان کا رخ کر سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:طالبان اور ایرانی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ
علی انور خان کے مطابق اس وقت تک تو بظاہر ایسے لگتا ہے کہ موسم گرما میں جب دریائے سندھ، دریائے گلگت یا شمالی علاقہ جات کے دریاوں میں پانی بہت تیز اور زیادہ ہوتا ہے اس وقت اس کھیل کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکے گا۔
‘مگر موسم سرما کے اندر جب پانی کا بہاؤ کم ہوتا ہے تو شمالی علاقہ جات کے یہ دریا اس مہم جوئی کے لیے بہترین ثابت ہو سکتے ہیں۔ علی انور خان کے مطابق اس کھیل اور مہم کو فروغ دے کر موسم سرما کی مہم جوئی میں ایک اور اضافہ بھی کیا جا سکتا جس سے غیر ملکی زرمبادلہ اور مقامی طور پر روزگار میں اضافہ ممکن ہو سکتا ہے۔

Related Articles

Back to top button