لاہور یونیورسٹی وائرل ویڈیو: جوڑے کی شادی نہ ہو پائی


یونیورسٹی آف لاہور میں چند ماہ پہلے ایک دوسرے کو شادی کے لیے پروپوز کرنے والے لڑکے اور لڑکی کو انکی ویڈیو وائرل ہونے پر یونیورسٹی سے تو نکال ہی دیا گیا تھا لیکن اب یہ معلوم ہوا ہے کہ ان دونوں کی شادی بھی نہ ہو پائی اور راہیں بھی ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئیں۔
لاہور یونیورسٹی ہے دونوں سٹوڈنٹس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے کئی ماہ بعد اس میں موجود طالب علم شہریار رانا نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ دونوں کی شادی ہو گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ لاہور یونیورسٹی سے نکالے جانے کے بعد دونوں کا رابطہ ختم ہوگیا اور راہیں بھی جدا ہوگئیں۔ شہریار نے بتایا کہ انہیں بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ انکی ویڈیو اتنے وسیع پیمانے پر وائرل ہوجائے گی اور انہیں اس حد تک تنقید اور مخالفت کا سامنا کرنے پڑے گا جس کے نتیجے میں نہ صرف ان کی محبت کا برا انجام ہوا بلکہ ان کے تعلیمی کیرئیر کو بھی نقصان پہنچا۔
خیال رہے کہ رواں برس 12 مارچ کو یونیورسٹی آف لاہور نےجامعہ کی حدود میں دیگر طلبہ کے سامنے طالب علم اور ساتھی طالبہ کی ایک دوسرے کو پروپوز کرنے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہونے کے بعد دونوں کو یونیورسٹی سے بے دخل کردیا تھا۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دیگر طلبہ کی موجودگی میں ایک طالبہ کو فلمی انداز میں لڑکے کو پھول پیش کرتے ہوئے، طالب علم سے محبت کا اظہار کرتے اور پھر دونوں کو گلے ملتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ اس موقع پر موجود دیگر طلبہ کی جانب سے شور بھی کیا گیا تھا جو ویڈیو میں واضح ہے، تاہم یہ ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے اس ویڈیو پر منقسم رائے کا اظہار کیا گیا تھا۔
بعدازاں وفاقی وزیر فواد چوہدری، اور بختاور بھٹو سمیت سیاسی شخصیات نے طلبہ کو یونیورسٹی سے نکالنے کی مخالفت کی تھی۔ اب ایک انٹرویو میں ویڈیو میں نظر آنے والے لڑکے شہریار رانا نے کہا ہے کہ ان کی ویڈیو جیسے وائرل ہوئی وہ میرے لیے ایک سرپرائز تھا۔ مجھے صرف اتنا بتایا گیا تھا کہ ایک برتھ ڈے پارٹی ہے۔ میں جب وہاں گیا تو لڑکی نے اچانک مجھے پرپوز کر دیا، مجھے کافی خوشی ہوئی اور ویڈیوز دیکھ کر مجھے بھی ایسا ہی لگا کہ جیسے کوئی فلمی سین ہے لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب میں نے یونیورسٹی کے گروپ پر اپنی ویڈیوز دیکھیں، اس پر جو میمز اور ٹک ٹاک بنیں مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ میں ہوں۔
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد گھروالوں اور رشتہ داروں کو جواب دینے سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس کے بعد سب کچھ بہت مشکل سے ہینڈل کیا، وہ ایک بہت مشکل وقت تھا۔ شہریار نے کہا کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میرا تعلق ایک پسماندہ علاقے سے ہے، سرگودھا کے ساتھ میرا علاقہ کوٹ مومن واقع ہے اور میرے والدین کو سوشل میڈیا کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں ہے۔ لیخن جب اس معاملے پر شدید تنقید کی گئی تو بات گھر تک چلی گئی اور وہ بہت پریشان ہوئے۔ شہریار نے کہا کہ میرے والدہ نے وہ ویڈیو بھی دیکھ لی تھی جس میں میں یہ کہتا نظر آتا ہوں کہ ’یہ ہم ہیں، یہ ہماری یونیورسٹی ہے اور یہ ہمیں نکالا جارہا ہے‘۔
شہریار نے کہا کہ میرے والدین پریشان تھے کہ اس کا کیریئر خراب ہورہا ہے، اب یہ کیسے آگے داخلہ لے کر ڈگری پوری کرے گا، پڑھائی مکمل کر بھی پائے گا یا نہیں۔ میرے والدین بہت زیادہ دباؤ کا شکار تھے تو ظاہر سی بات ہے میں نے بھی دباؤ کا شکار ہوا، وہ بہت مشکل وقت تھا الحمداللہ اب وہ وقت گزر چکا ہے۔ یونیورسٹی سے نکالے جانے سے متعلق شہریار نے کہا کہ وہ ویڈیو اتنی زیادہ وائرل ہوگئی کہ کوئی بھی یونیورسٹی ہوتی تو وہ یہی کارروائی کرتی جو اس وقت کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی نے اپنا فرض ادا کیا تھا اور ہمیں دفتر بلایا تھا، لیکن ویڈیو وائرل ہونے کے بعد صورتحال کچھ ایسی تھی کہ میں وہاں نہیں جاسکا چنانچہ یونیورسٹی کو مجبوراً یہ فیصلہ کرنا پڑا تھا۔ شہریار نے کہا کہ ہماری جنریشن کے دل میں کوئی بھی بات آتی ہے چاہے وہ اچھی ہو یا بری، وہ کرجاتے ہیں، یہ آزاد خیالی ہے، اگر ہم یہی چیز چھپ کر کرتے تو سب ٹھیک تھا لیکن جب سب کے سامنے کرلیا تو ہم برے ہو گے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کی ذہنیت کا کچھ کہہ نہیں سکتے پل میں تولہ پل میں ماشہ ہوتی ہے، لوگوں نے جس نفرت کا اظہار کیا اس سے ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور لڑکی کے لیے ہمارا معاشرہ ویسے ہی بہت سخت ہے، انہیں بخشا ہی نہیں جاتا لڑکے کے لیے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ بیٹا خیر ہے۔
وائرل ویڈیو میں موجود لڑکی سے شادی کی خبروں پر شہریار نے کہا کہ میں موبائل دیکھ رہا تھا تو میرے سامنے میری شادی کی خبر آئی میں خود بھی بہت حیران ہوا کہ میری شادی ہوگئی اور مجھے معلوم ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے غلطی کی کہ گھروالوں سے پوچھے بغیر پرپوزل قبول کیا اور وہ پوری دنیا میں وائرل ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ وائرل ہوجائے گا، آپ کو بھی پتا ہے کہ لاہور میں کتنے پرپوزل سینز ہوتے ہیں، یونیورسٹیز میں کتنے ہوتے ہیں مگر جب یونیورسٹی گروپ میں ویڈیو آئی تب بھی میرے ذہن میں یہی تھا کہ ویڈیو گروپ میں ہی رہے گی باہر نہیں جائے گی۔ شہریار نے کہا کہ اس پرپوزل ویڈیو کو جب عورت مارچ سے جوڑا گیا تو پھر ہمیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اس ویڈیو کو اس سے نہیں جوڑنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب گھر والے کہتے ہیں کہ ڈگری مکمل کرو، کیریئر بناؤ اس کے بعد جو دل کرے کرو، میری تعلیم مکمل ہونے میں دو سال رہتے ہیں اس کے بعد ہی شادی بارے سوچوں گا کیونکہ بغیر کیریئر والے لڑکے کو کوئی بھی ماں باپ اپنی بیٹی نہیں دیتے۔

Related Articles

Back to top button