مشرف دور میں پاکستان کو کارگل سے فوج کیوں نکالنا پڑی؟

آج ہم آپکو 1999 کی کارگل جنگ کے دوران انڈین انٹیلی جینس کی جانب سے جنرل پرویز مشرف کی ایک فون کال ریکارڈ کرنے کی کہانی سنائیں گے جس کے نتیجے میں امریکہ اس نتیجے پر پہنچا کہ پاکستان نے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کی ہے اور اسے ہر قیمت پر انڈیا کی سر زمین سے واپس چلے جانا چاہیے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ان ٹیپس کی وجہ سے پاکستان پر بیرونی دنیا کا دباؤ بڑھا اور اسے کارگل سے اپنی فوج کو واپس بلانا پڑا۔

کہانی کچھ یوں یے کہ 26 مئی 1999 کی شب ساڑھے نو بجے انڈیا کے تب کے آرمی چیف جنرل وید پرکاش ملک کی ’سکیور انٹرنل ایکسچینج‘ فون کی گھنٹی بجی۔ فون کے دوسرے سرے پر ہندوستانی انٹیلیجنس ایجنسی را کے سیکرٹری اروند دَوے تھے۔ انھوں نے جنرل ملک کو بتایا کہ انہوں نے پاکستان کے دو بڑے جرنیلوں کے درمیان فون پر ہونے والی بات چیت کو ریکارڈ کیا ہے۔ ان میں سے ایک جنرل مشرف تھے جو چین میں موجود تھے اور جنرل عزیز سے بیجنگ سے گفتگو کر رہے تھے۔ پھر را کے سربراہ نے ریکارڈ شدہ گفتگو کے حصوں کو جنرل ملک کو پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اس میں پوشیدہ معلومات ہمارے لیے اہم ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ 1999 میں نواز شریف وزیراعظم تھے اور انھوں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ کارگل کی جنگ مشرف نے ان کو بتائے بغیر چھیڑی۔ اس جنگ کے دوران بھارت نے پاکستانی فوج کی سپلائی لائن کاٹ دی تھی اور بڑے پیمانے پر شہادتیں ہوئیں تھیں جس کے بعد نوازشریف نے مشرف کی درخواست پر امریکی صدر کلنٹن کو ثالث بنا کر کارگل سے فوج واپس بلا لی تھی۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی آرمی چیف چیف جنرل ملک نے اس فون کال کے متعلق بتایا کہ جب مجھے مشرف اور عزیز کی فون کال کا تحریری متن موصول ہوا تو میں نے را کے چیف اروند دَوے کو فون کیا اور کہا کہ آپ ان دونون فون نمبروں کی ریکارڈنگ جاری رکھیں۔ جنرل ملک نے کہا: ’تین دن بعد را نے دونوں جرنیلوں کے درمیان ایک اور کال ریکارڈ کی اور اسکی تفصیل نیشنل سکیورٹی کے مشیر برجش مشرا اور وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کو بھیج دی۔ انکا کہنا تھا کہ 2 جون 1999کو جب میں وزیر اعظم واجپائی اور برجیش مشرا کے ساتھ بحریہ کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے ممبئی گیا تو واپسی میں وزیر اعظم نے مجھ سے تازہ ترین ریکارڈنگز کے بارے میں پوچھا۔ جنرل ملک نے واجپائی کو جنرل مشرف اور جنرل عزیز کی گفتگو کی جو ٹرانسکرپٹ دی وہ کچھ یوں تھی:

مشرف کہتا یے: ’ہیلو، عزیز۔ کیا صورتحال ہے؟
عزیز کہتا ہے: ’گراؤنڈ سیچوئیشن اوکے ہے۔ کوئی تبدیلی نہیں۔ ان کے ایک ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر کو مار گرایا ہے۔ کیا آپ نے کل کی خبر سنی کہ میاں صاحب نے اپنے بھارتی ہم منصب سے بات کی ہے۔ انھوں نے ان سے کہا ہے کہ معاملے کو آپ لوگ طول دے رہے ہیں۔ فضائیہ کو استعمال کرنے سے پہلے آپ کو ذرا انتظار کرنا چاہیے تھا۔
ہم کشیدگی کو کم کرنے کے لیے وزیر خارجہ سرتاج عزیز کو دلی بھیج سکتے ہیں۔

پجر مشرف کہتا ہے: ’او کے۔ کیا یہ ایم آئی 17 ہمارے علاقے میں گرا ہے؟‘

جنرل عزیز کہتا ہے: ’نہیں سر۔ یہ ان کے علاقے میں گرا ہے۔ ہم نے اسے گرانے کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔ ہم نے مجاہدین سے اسے گرانے کا دعویٰ کروایا ہے۔‘

اس پر مشرف کہتا ہے: ’چلو اچھا کیا۔‘

جنرل عزیز کہتا ہے: ’لیکن یہ منظر قابل دید تھا۔ ہماری اپنی آنکھوں کے سامنے ان کا ہیلی کاپٹر گرا۔‘

مشرف جواب میں کہتا ہے: ’ویل ڈَن۔ کیا اس کے بعد انھیں ہماری سرحد کے پاس پرواز کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہے؟ وہ خوفزدہ ہیں یا نہیں؟ اس پر بھی نظر رکھو۔ کیا وہ اب ہماری سرحد سے دور رہ کر پرواز کر رہے ہیں؟‘

جنرل عزیز کہتا ہے: ہاں، اب ان پر بہت دباؤ ہے۔ اس کے بعد ان کی پروازوں میں کمی ہوئی ہے۔

جواب میں مشرف کہتا ہے: ’بہت اچھے۔ فرسٹ کلاس۔

دودری جانب یکم جنوری تک وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور سکیورٹی کونسل کی کمیٹی کو یہ ٹیپ سنوائی جا چکی تھی۔ 4 جون کو انڈیا نے ان ٹیپس کو ان کی ٹرانسکرپٹ کے ساتھ وزیر اعظم نواز شریف کو سنانے کا فیصلہ کیا۔ اگر مشرف کی بات چیت کو ریکارڈ کرنا انڈین انٹیلیجنس کی ایک بڑی کامیابی تھی تو نواز شریف تک ان ٹیپس کا پہنچانا کوئی کم بڑا کام نہیں تھا۔ سوال اٹھا کہ ان حساس ٹیپس کو لے کر اسلام آباد کون جائے گا؟ مشہور صحافی آر کے مشرا کو اس کے لیے منتخب کیا گیا تھا جو اس وقت آسٹریلیا میں تھے۔ انھیں انڈیا بلا کر یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ اس خوف سے کہ کہیں اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر ان کی تلاشی نہ لی جائے اس لیے انھیں ’سفارتکار‘ کی حیثیت دی گئی ہے تاکہ انھیں سفارتی استثنیٰ حاصل ہو جائے۔ ان کے ساتھ ہندوستانی وزارتِ خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری وویک کاٹجو بھی گئے۔ آرکے مشرا نے صبح 8:30 بجے ناشتے کے وقت نواز شریف سے ملاقات کی اور انھیں وہ ٹیپ سنوائی اور ٹرانسکرپٹ ان کے حوالے کی۔ اس کام کو مکمل کرنے کے بعد مشرا اور کاٹجو اسی شام دہلی واپس آ گئے۔ اس سفر کو اتنا خفیہ رکھا گیا کہ اس وقت کم از کم اس کا ذکر کہیں نہیں آیا۔
صرف کولکتہ سے شائع ہونے والے اخبار ’ٹیلی گراف‘ نے چار جولائی سنہ 1999 کے اخبار میں پرنے شرما کی ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا ’دہلی ہٹس شریف ود آرمی ٹیپ ٹاک‘ تھا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس ٹیپ کو نواز شریف کو سنانے کے لیے انڈیا نے وزارت خارجہ میں جوائنٹ سکریٹری وویک کاٹجو کو اسلام آباد بھیجا تھا۔

را کے سابق ایڈیشنل سکریٹری بی رمن نے 22 جون 2007 کو آؤٹ لک میگزین میں لکھے گئے ایک مضمون ’ریلیز آف کارگل ٹیپ ماسٹر پیس اور بلنڈر؟‘ میں لکھا کہ نواز شریف کو ٹیپ سنانے والوں کو یہ واضح پیغام دیا گیا تھا کہ وہ ٹیپ سنانے کے بعد اسے واپس لے آئيں اور ان کے حوالے نہ کریں۔

وزیر اعظم نواز شریف کے ان ٹیپوں کو سننے کے ایک ہفتے بعد 11 جون 1999 کو پاکستانی وزیر خارجہ سرتاج عزیز کے دورے سے قبل انڈیا نے ایک پریس کانفرنس میں ان ٹیپس کو ظاہر کر دیا۔ ان ٹیپس کی سینکڑوں کاپیاں بنائی گئيں اور دہلی میں تمام غیر ملکی سفارت خانوں کو بھیجی گئیں۔

کارگل پر شائع ہونے والی معروف کتاب ’کارگل سے تختہ الٹنے تک’ لکھنے والی پاکستانی صحافی نسیم زہرہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں: ’اپنے چیف آف جنرل سٹاف سے اتنی حساس بات چیت کھلے فون پر کرکے جنرل مشرف نے یہ ثبوت دیا کہ وہ کس حد تک لاپرواہ ہو سکتے ہیں۔ اس گفتگو کے عام ہونے نے یہ ثابت کر دیا کہ کارگل آپریشن میں پاکستان کی اعلیٰ قیادت کس حد تک ملوث تھی۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ پرویز مشرف نے اپنی سوانح عمری ’ان دی لائن آف فائر‘ میں اس واقعے کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ تاہم بعد میں پاکستان کے صدر کے طور پر ہندوستانی صحافی ایم جے ابر کو دیے ایک انٹرویو میں انھوں نے ان ٹیپس کی صداقت کو قبول کیا۔ نواز شریف کے ٹیپ سننے کے ایک ہفتے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ سرتاج عزیز جب انڈیا کے دورے پر دہلی آ رہے تھے تو ایئرپورٹ پر پاکستانی ہائی کمیشن کے پریس کونسل پریشانی کے عالم میں ان کی منتظر تھی۔

ان کے ہاتھ میں کم سے کم چھ ہندوستانی اخبار تھے جن میں مشرف – عزيز گفتگو شائع ہوئی تھی۔ جسونت سنگھ نے سرتاج عزیز سے بہت سرد مہری سے مصافحہ کیا۔ ان ٹیپس سے دنیا اور خاص طور پر ہندوستان میں اس خیال کو استحکام ملا کہ پاکستان کے وزیر اعظم کا کارگل بحران میں براہِ راست ہاتھ نہیں ہے اور فوج نے انھیں کارگل مہم کی معلومات سے دور رکھا ہے۔

بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق چیف بی رمن کے مطابق ان ٹیپس نے بھارتی فوج کے اس دعوے کو سچا ثابت کیا کہ کارگل میں لڑائی کرنے والے پاکستانی فوج کے ’باقا‏عدہ‘ سپاہی ہیں نہ کہ علیحدگی پسند جہادی جیسا کہ مشرف بار بار کہہ رہے تھے۔ ان معلومات نے امریکہ کو اس نتیجے تک پہنچنے میں مدد دی کہ پاکستان نے کشمیر میں کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کی ہے اور اسے ہر قیمت پر انڈیا کی سر زمین سے ہٹانا چاہیے۔ ان ٹیپس کی وجہ سے پاکستانیوں کے درمیان پاکستانی فوج اور مشرف کے قابل یقین ہونے پر شک و شبہات پیدا ہوئے۔ آج بھی پاکستان میں بہت سے لوگ ہیں جو کارگل کے متعلق مشرف کی مبینہ کہانی کو مسترد کرتے ہیں۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ان ٹیپس کی وجہ سے پاکستان پر دنیا کا دباؤ بڑھا اور اسے کارگل سے اپنے فوجیوں کو ہٹانا پڑا۔

Related Articles

Back to top button