میرے بیان کو بالکل غلط لیا گیا کہ میری تیاری نہیں تھی

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ میرے اس بیان کو بالکل غلط لیا گیا کہ میری تیاری نہیں تھی۔نجی چینل کے پروگرام میں انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ‘میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ حکومت میں آنے سے پہلے پریزنٹیشن مل جائے تو آپ آکر کام شروع کر دیں گے، گلگت بلتستان میں حکومت کو آئے 2 ماہ ہوگئے لیکن ابھی تک انہیں پریزنٹیشن دی جارہی ہے، جبکہ جو بائیڈن امریکی نائب صدر رہ چکے ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں اب بھی پریزنٹیشن دی جارہی ہے’۔عمران خان نے کہا کہ ‘میری زندگی کے مشکل دو سال گزرے لیکن میں نے کبھی یہ بہانہ نہیں کیا کہ میری تیاری نہیں تھی، اب پاکستان کا اچھا وقت آرہا ہے اور 5 سال بعد لوگ میری کارکردگی سے متعلق فیصلہ کریں گے’۔انہوں نے کہا کہ ‘کوئی بے وقوف ہی ہوگا جسے پتہ نہ ہو کہ ملک کے کیا مسائل ہیں، پاکستان کے حل تکلیف دے ہیں، گھر پر قرض اس لیے چڑھتا ہے کہ آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہوتے ہیں، خرچے کم کرتے ہیں تو گھر میں تکلیف ہوتی ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری حکومت آئی تو تاریخی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا، بجلی میں 400 ارب روپے اس خسارے کا بھی پتا چلا جو رکارڈ میں ہی نہ تھا لیکن 17 سال بعد کرنٹ اکاؤنٹ پانچ ماہ سے مثبت ہے، 2 سال میں 20 ارب ڈالر قرض واپس کیا ہے، ہماری آدھی ٹیکس آمدن قرضوں کی قسطیں اتارنے میں چلی جاتی ہے، ترسیلات زر اوربرآمدات میں اضافہ ہوا، ہمارا روپیہ گرنے سے بچ گیا ہے اور ہم مارکیٹ میں روپے کو روکنے کے لیے ڈالر نہیں پھینک رہے’۔دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہا کہ ‘میں نے کہا تھا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے مل کر حکومت بنانا پڑی تو اپوزیشن میں بیٹھوں گا، اگر ان لوگوں کے ساتھ مل کر حکومت بناتا تو احتساب نہیں ہوسکتا تھا جبکہ حکومت میں آکر ملک میں لوٹنے کا سلسلہ احتساب کی صورت میں ہی رُک سکتا ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور دیگر اتحادیوں سے تعلقات اچھے ہیں، ایم کیو ایم کے نظریات ہم سے ملتے جلتے ہیں جبکہ میری لڑائی دہشت گرد بانی متحدہ الطاف حسین کے خلاف تھی’۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘ہماری حکومت آئی تو کہا گیا کہ حکومت ایک ماہ میں گئی، دو ماہ میں گئی، کورونا آیا تو اپوزیشن نے خوشیاں منائیں اور واویلا کرتی رہی کہ حکومت آج گئی کل گئی، شہباز شریف لندن سے آکر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ گئے اور کورونا آیا تو شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ شہباز شریف سے پوچھیں کیونکہ انہوں نے ڈینگی کنٹرول کیا’۔اپنے بیانات سے یوٹرن لینے سے متعلق عمران خان نے کہا کہ ‘یوٹرن تب بُرا ہوتا ہے جب نظریے پر سمجھوتہ ہو، اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان کے نظریے پر سمجھوتہ ہے، اپنی منزل پانے کے لیے کہیں نہ کہیں سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے لیکن این آر او پر کبھی سمجھوتہ نہیں کروں گا’۔انہوں نے کہا کہ ‘3 مرتبہ کے وزیر اعظم کے بیٹوں کی اربوں روپے کی پراپرٹی ہے، میرے کسی وزیر پر کرپشن کا الزام ثابت ہوجائے تو کارروائی کروں گا، وزیراعظم اور وزیر کرپشن کریں تو ملک تباہ ہوجاتے ہیں، اگر وزیرا عظم پیسہ بنائے گا تو وزیر کو کرپشن سے نہیں روک سکتا جبکہ اقتدار میں بیٹھ کر کرپشن کرنے والوں کو عام لوگوں کی طرح سزا نہیں ملنی چاہیے’۔
شوگر مافیا کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘ملکی تاریخ میں پہلی بار شوگر مافیا کے خلاف کارروائی ہوئی، شوگر مافیا میں سب سے پہلے شریف خاندان آیا، نواز شریف، آصف زرداری اور وزیروں نے شوگر ملیں بنالیں جبکہ چینی کاغذ پر برآمد ہوتی تھی’۔وزیر اعظم نے لیگی رہنما خواجہ آصف کی گرفتاری سے متعلق کہا کہ ‘خواجہ آصف کو دبئی سے کیش کی صورت میں رقم آرہی تھی، میں نے کابینہ میں کہا کہ خواجہ آصف کے خلاف تحقیقات کرو، ہمیں پتہ تھا کہ اقامہ منی لانڈرنگ کا طریقہ ہے’۔نیب کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ‘نیب میں ان کے خلاف 95 فیصد کیسز ہم نے نہیں بنائے، کیا میرے کہنے پر نیب نے عبدالعلیم خان اور سبطین کو بھی جیل میں ڈالا؟ اب یہ دونوں مجھے کہیں کہ نواز شریف دور میں تو نیب نے نہیں پکڑا اب گرفتار ہوگئے، ہم نہ نیب میں دخل اندازی کرتے ہیں اور نہ ہی جج کو فون کرتے ہیں’۔اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے پہلے کہا تھا کہ یہ سب اکٹھے ہوں گے اور جمہوریت کا نام استعمال کریں گے، میں ان سب کو جانتا ہوں کہ یہ اقتدار سے پہلے کیا تھے اب ارب پتی بن چکے ہیں، ان کی سیاست یہ ہے کہ اقتدار میں آکر مال بناؤ ، یہ سب چاہتے ہیں ان کے کرپشن کیسز ختم کردوں جس کے لیے مجھے بلیک میل کرتے ہیں، لیکن یہ جو مرضی کریں، جتنے مرضی جلسے کریں میں این آر او نہیں دوں گا کیونکہ ان کو این آر او دوں گا تو ملک سے غداری کروں گا’۔
پاک فوج کے خلاف بیانات سے متعلق عمران خان نے کہا کہ ‘پاکستان کی فوج ہماری فوج ہے، فوج کو پتا ہے کہ عمران خان پیسے چوری کر کے پراپرٹی نہیں بنارہا، عمران خان نہ کاروبار کر رہا ہے نہ فیکٹری بنا رہا ہے، میرا جینا مرنا پاکستان میں ہے، ان پر دباؤ آتا ہے تو یہ باہر بھاگ جاتے ہیں’۔انہوں نے کہا کہ ‘اپوزیشن پھنس گئی ہے، ایسا وزیراعظم آگیا ہے جو این آر او نہیں دے رہا، فوج کو بھی پتہ ہے کہ میں پاکستان کے لیے کام کر رہا ہوں اور پاکستان کے لیے کام کرنے والے ہر وزیر اعظم کے ساتھ ہوگی، جبکہ اگر فوج میری پشت پناہی کر رہی ہے تو یہ اس کا ثبوت دیں’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘بھارت میرے خلاف جو پروپیگنڈا کر رہا ہے وہی اپوزیشن کر رہی ہے، اگر میں کٹھ پتلی ہوں تو بتائیں اپنے منشور سے کون سا کام الگ کر رہا ہوں، میں ان کی چوری کو معاف نہیں کروں گا تو یہ کچھ نہ کچھ کہتے رہیں گے، اپوزیشن والوں کی رگ رگ جانتا ہوں’۔عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہا کہ ‘یہ کہتے ہیں دھاندلی ہوئی جس پر ہم نے پارلیمنٹ میں کمیٹی بنادی لیکن پہلے اجلاس کے بعد کوئی کمیٹی میں نہیں آیا اور اپوزیشن نے دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں دیا’۔
اپوزیشن سے مذاکرات سے متعلق انہوں نے کہا کہ ‘میں نے کب کہا کہ بات نہیں کروں گا لیکن یہ رائٹ دکھا کر لیفٹ مارتے ہیں’۔اپوزیشن کے جلسوں اور ریلیوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘آج ملک کے سب سے بڑے ڈاکو انقلابی بن گئے ہیں لیکن اپوزیشن کبھی بھی عوامی مہم نہیں چلا سکتی، عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں لیکن یہ لوگ کرپشن بچانے کے لیے نکل رہے ہیں اس لیے عوام کبھی ان کے ساتھ نہیں نکلیں گے’۔انہوں نے کہا کہ ‘مولانا فضل الرحمٰن نہیں بتا سکتے کہ اربوں کی پراپرٹی کہاں سے بنائی اور انہوں نے خود کو صادق اور امین ڈکلیئر کر لیا ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘کاروباری برادری چاہتی ہے کہ حکومت کامیاب ہو، تاجروں کا اعتماد دیکھنا ہے تو اسٹاک ایکسچینج دیکھ لیں، حکومت سنبھالی تو صنعتیں بند تھیں لیکن آج ٹیکسٹائل انڈسٹری ترقی کر رہی ہے’۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button