نایاب ہرن کے شکار کی ویڈیو نے سوشل میڈیا پر کہرام مچا دیا


میدانی علاقوں، خشک جنگلات، اور پہاڑوں میں پائے جانے والے نایاب چنکارا ہرن کو ہندی غزال بھی کہا جاتا ہے، اس کی زیادہ تر نسل پاکستان، بھارت اور ایران کے مختلف علاقوں میں پائی جاتی ہے، گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر سندھ میں اس نایاب نسل کے دو ہرنوں کے شکار کی ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین نے سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔
ٹوئٹر پر غیرقانونی شکار کی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن میں بعض افراد نایاب ہرنوں کا شکار کر رہے ہیں، ویڈیو میں نظر آتا ہے کہ ایک لانگ رینج رائفل سے ایک شخص گاڑی میں بیٹھ کر ویرانے میں موجود ایک ہرن کو نشانہ بنا رہا ہے، فائر ہوتے ہی ہرن زخمی ہو کر زمین پر گر پڑتا ہے، اس کے بعد ایک دوسرے ہرن کا نشانہ لیا جاتا ہے اور وہ بھی گولی لگنے کے بعد گر کر کراہنے لگتا ہے۔ اس پورے منظر کی شکاری کے ساتھ موجود دوسرا شخص ویڈیو بنا رہا ہے، ایک منظر میں ایک شخص گولی مارنے والے سے پوچھتا ہے کہ ’مار رہا ہے‘، جس کے جواب میں دوسرا شخص کہتا ہے ’یس‘، اس کے بعد گولی چلتی ہے اور ہرن زمین پر گر جاتا ہے، پھر شاباشی کی آوازیں آتی ہیں جن میں ایک شخص کہہ رہا ہے کہ ’واٹ اے شاٹ، ڈیڈ شاٹ، پھر کیمرہ ہرن کی جانب زوم اِن ہوتا ہے اور زخمی ہرن کو کراہتے ہوئے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے، ایک منظر میں گاڑی میں بیٹھے ایک شخص کا چہرا بھی نظر آتا ہے۔
سوشل میڈیا پر صارفین نے اس ویڈیو پر شدید ناراضی کا اظہار کیا اور بعض نے ناظم جوکھیو کے قتل کا بھی حوالہ دیا جنھوں نے عرب شکاریوں کو شکار سے روکا اور بعد میں اس کی تشدد کے باعث موت ہوگئی، ٹوئٹر پر فاروق سومرو لکھتے ہیں کہ یہ کیسے انسان ہیں جن کو کائنات کی حسین تخلیق مارتے ہوئے مزا آ رہا ہے۔
ریحان قریشی لکھتے ہیں کہ کوئی پرندوں کے لیے بندوق تو کوئی پینے کا پانی رکھتا ہے، حسنین علی لکھتے ہیں کہ اگر یہ سچ ہے تو اس ظالم کو سلاخوں کے پیچھے بھیجنا چاہئے، ویسے بھی کتنے ظالمانہ طریقے سے مارا گیا ہے۔
وحید علی لکھتے ہیں کیا ملا ہو گا اسے اس طرح نایاب ہرن کی نسل کشی کر کے، نور محمد گگو لکھتے ہیں کہ ميری توبہ، اپنے شوق کی خاطر کسی بے زبان کی جان لینا سمجھ سے باہر ہے۔
سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے اور عوامی دباؤ کے بعد سندھ کے محکمہ جنگلی حیات نے تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے جس میں بتایا گیا کہ سوشل میڈیا پر آنے والی ویڈیو میں کراچی کے رہائشی نے دو ہرنوں کا شکار کیا ہے۔ سندھ میں جنگلی حیات کے قانون کے تحت جنگلی جانوروں اور پرندوں کو تحفظ حاصل ہے، ان میں سے بعض کے شکار کے اجازت نامے جاری کیے جاتے ہیں، جبکہ چنکارا ہرن ان جنگلی حیات میں شامل ہے جن کی نسل خطرے سے دوچار ہے اور اس کے شکار پر مکمل پابندی ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی کے ٹرمز آف ریفرنسز کے مطابق ویڈیو کا فورنزک تجزیہ کرایا جائے گا، ویڈیو میں نظر آنے والے شخص کی مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی اور ان کا بیان ریکارڈ ہوگا، اس بات کا تعین کیا جائے گا اور شواہد اکٹھا کیے جائیں گے کہ کیا یہ شکار سندھ کی حدود میں کیا گیا، تحقیقاتی حکم نامے کے مطابق اگر شکاری پر الزام ثابت ہوتا ہے تو سندھ میں جنگلی حیات کے تحفظ کے قانون کے مطابق کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔ پاکستانی جنگلات میں مجموعی طور پر 585 چنکارا ہرن موجود ہیں، خیبر پختونخوا، کالاباغ، اعر صحرائے چولستان سے لے کر سندھ میں کھیرتھر کی پہاڑیوں میں چنکارا ہرن پائے جاتے ہیں، سروے کے مطابق سبی کے میدانی علاقوں مکران، تربت اور لسبیلہ میں بھی چنکارا ہرن پائے جاتے ہیں۔
ماحول کے بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق چنکارا ہرن ریتیلے اور پہاڑی و میدانی علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کی تعداد میں واضح کمی ہو رہی ہے، 1983 میں بلوچستان میں پسنی اور اوڑماڑہ کے درمیان دس سے بارہ چنکارا ہرن نظر آ جاتے تھے، 1988 کے بعد اس قدر شکار کیا گیا کہ مشکل سے ہی کوئی ایک آدھا چنکارا ہرن نظر آتا تھا۔ لہذا شکار کے اس سلسلے کو سختی سے روکنا ہوگا ورنہ چنکارا ہرن کی نسل پاکستان میں ختم ہو جائے گی۔

Related Articles

Back to top button