پہاڑوں کا پہاڑ، K-2 پہاڑ پہلی بار نیپالیوں نے موسم سرما میں سر کر لیا

16 جنوری کی شام کا سورج ڈھل رہا ہے اور K 2 کی چوٹی پر درجہ حرارت منفی 45 ڈگری سینٹی گریڈ ہے اور ہوا کی رفتار 15 کلومیٹر فی گھنٹہ۔ چوٹی سے دس میٹر کی دوری پر موجود دس کوہ پیما نیپال کا قومی ترانہ گا رہے ہیں۔
اس کے تھوڑی ہی دیر بعد ان نیپالی کوہ پیماؤں نے ایک ساتھ 8611 میٹر (28251 فیٹ) کی بلندی تک رسائی حاصل کر کے وہ کارنامہ انجام دیا جسے کوہ پیمائی کی تاریخ کا ‘فائنل فرنٹیئر’ سمجھا جاتا ہے، یعنی دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو موسم سرما میں سر کرنا۔
ان کوہ پیماؤں میں سے ایک سونا شرپا نے بی بی سی کو بتایا کہ مہم سے پہلے ان کے دل میں کچھ گھبراہٹ اور پریشانی تھی لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس کارنامے کو حاصل کرنے میں سب سے زیادہ مدد اس پہاڑ نے خود کی۔’ہم بہت خوش قسمت تھے۔ اس کامیابی کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ K 2 نے ہمیں خود کو سر کرنے کا موقع اور مہلت دی، یہ بہت بڑی بات ہے۔’ان کے ساتھی کوہ پیما گلجین شرپا نےمیڈیا کو بتایا کہ K 2 پر پہنچ کر کونکارڈیا کے خطے کی دیگر 8000 میٹر سے بلند چوٹیوں کو دیکھنا ان کے لیے ایک دلکش ترین نظارہ تھا۔
‘میری آنکھ میں برف کی وجہ سے سوجن ہونا شروع ہو گئی تھی اور شام کا وقت ہونے کے باعث ہم جلد نیچے جانا چاہتے تھے۔ لیکن K 2 سے قراقرم کی دیگر 8000 میٹر چوٹیوں کو دیکھنا انتہائی یادگار تھا اور میری خواہش تھی کہ اس نظارے کو تصویر میں بند کر لوں۔’ان کا اور سونا شرپا کا کہنا تھا کہ انھوں نے کافی بار ایورسٹ سر کیا ہے لیکن قراقرم سے نظارہ انتہائی لاجواب تھا۔’ سورج کے ڈھلتے ہوئے براڈ پیک، گاشربرم ون اور ٹو کا منظر بہت خوبصورت تھا، لیکن ہمیں فوراً ہی وہاں سے نکلنا تھا ورنہ اندھیرا ہو جاتا۔’
جب 1909 میں اطالوی کوہ پیما لوئیجی امیڈیو ابروزی نے پہلی بار K 2 کو سر کرنے کی کوشش کی تو وہ 20 ہزار فٹ کی بلندی تک پہنچ سکے اور بعد میں ان کا کہنا تھا کہ یہ اس قدر دشوار پہاڑ ہے کہ اس پر صرف جہاز سے پائلٹ ہی پہنچ سکتا ہے، کوئی کوہ پیما نہیں۔آج سے تقریباً سات دہائی قبل 31 جولائی 1954 کو دو اطالوی کوہ پیماؤں نے پہلی بار 8611 میٹر بلند دنیا کی دوسری سب سے اونچی چوٹی کے ٹو سر کی، تو ان میں سے ایک، اچیل کومپاگنونی کا کہنا تھا کہ انھیں اپنے کانوں میں ایک فرشتے کی بازگشت سنائی دی جو ان کو چوٹی پر چڑھنے کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔
وہ کہتے ہیں: ‘جب میں اوپر پہنچا تو میں اپنے گھٹنوں کے بل گر گیا اور مجھے محسوس ہوا کہ میرے چہرے پر کچھ ہے۔ میری آنکھوں کے نیچے برف تھی، وہ درحقیقت میرے آنسو تھے جو سردی کی وجہ سے جم گئے۔ مجھے احساس ہوا کہ میں رو رہا ہوں۔’کوہ پیمائی کی تاریخ کے عظیم ترین ناموں میں سے ایک اور آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلندی والی تمام 14 چوٹیاں سر کرنے والے سب سے پہلے انسان، اطالوی کوہ پیما رائین ہولڈ میسنر نے جب 1979 میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی گوڈون آسٹن یعنی کے ٹو سر کی، تو اس پہاڑ کے بارے میں انھوں نے ان الفاظ میں اپنے تاثرات بیان کیے: یہ تمام اونچی چوٹیوں میں سب سے زیادہ حسین چوٹی ہے۔ اس کو ایک مصور نے بنایا ہے۔’
لیکن جہاں ایک جانب اس پہاڑ کی خوبصورتی مشہور ہے، دوسری جانب اس ‘حسین ترین’ پہاڑ کو ‘سیویج ماؤنٹین’ یعنی خونی پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔ آٹھ ہزار میٹر سے بلند 14 چوٹیوں پر چڑھائی کرنے والوں میں سب سے زیادہ شرح موت کے ٹو پر ہے جہاں اوسطاً ہر چار میں سے ایک کوہ پیما واپس نہیں لوٹ پاتا۔K 2 اس قدر مشکل پہاڑ ہے کہ جہاں ماؤنٹ ایورسٹ کو کامیابی سے سر کرنے والوں کی تعداد چار ہزار سے زیادہ ہے، K 2 پر ایسے خوش قسمت افراد چار سو سے بھی کم ہیں۔1987 کے بعد سے اب تک سات بار کوہ پیماؤں کی مختلف ٹیموں نے کوشش کی ہے کہ وہ سردی کے مہینوں میں کے ٹو کو سر کر لیں لیکن ہر بار ناکامی ان کا مقدر بنی۔
لیکن اس سال نیپالی شرپاؤں اور کوہ پیماؤں کی ٹیم نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔لیکن یہ ‘ناممکن’ سمجھے جانے والا چیلنج کیسے پورا ہوا، اور کس گھڑی لگا کہ یہ نہیں ہو پائے گا اور پھر ہو گیا تو کیسا لگا؟یہ جاننے اور واپس لوٹنے کی اس کامیاب مہم کی تفصیلات جاننے کے لیے کھٹمنڈو میں موجود تھانیسور گوراگئی سے بات کی جو کہ K 2 کے بیس کیمپ سے رابطے میں ہیں۔سونا شرپا کہتے ہیں کہ وہ پہلے بھی کئی بڑی چوٹیاں سر کر چکے ہیں جن میں مناسلو سات بار اور ایورسٹ چار بار سر کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن کے ٹو پر پہلی بار کوہ پیمائی کا موقع تھا۔
گیلجین شرپا کہتے ہیں کہ انھوں نے مناسلو، ایورسٹ، گاشربرم ون اور ٹو کو سر کیا ہے لیکن یہ کے ٹو کا پہلا موقع تھا۔ ‘اب کے ٹو میں نے سردی میں کر لیا تو میرے دونوں ریکارڈ ہو گئے اپنے لیے بھی اور دنیا کے لیے بھی۔’سونا شرپا کا کہنا تھا کہ اس مہم کی اہم ترین بات یہ تھی کہ ٹیم کے آٹھ ممبران شرپا تھے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ ٹیم ورک تھا اور وہ پر امید ہیں کہ شرپاؤں کی اس کامیابی سے ان کے کردار اور اہمیت کو مزید نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔مہم کے آغاز پر پر سونا پریشان تھے لیکن یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی بلکہ حقائق اور تجربات کے مطابق بالکل بجا تھی۔
‘ہم شرپاؤں کے لیے پہاڑوں پر چڑھنا اور انھیں سر کرنا معمول کی بات ہے۔ کمرشل مہموں کے دوران ہم دل ہی دل میں سوچ رہے ہوتے ہیں یہ ہو جائے گا، ہم کر سکتے ہیں۔ لیکن جب سردی کی بات آ گئی، اوپر سے کے ٹو کی، جسے ابھی تک کسی نے اس موسم میں سر نہیں کیا تو میرے دل میں کچھ گھبراہٹ تھی کہ اس میں کچھ پریشانی ہو گی۔ کافی لوگ اس سے پہلے کوشش کر چکے تھے لیکن وہ ناکام ہوئے۔’
سونا شرپا نے بتایا کہ اس مہم میں ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ چوٹی تک جانے والے راستے میں رسی پہاڑ میں فکس کرتے جائیں تاکہ دیگر مہم جو بھی اس کے ذریعے اوپر جا سکیں۔’اس کام کے لیے میرے ساتھ دو اور کوہ پیما تھے لیکن موسم سرما میں یہ کام کرنا انتہائی دشوار تھا۔ کوئی اندازہ ہی نہیں لگا سکتا کہ کتنی شدید ٹھنڈ تھی۔ ‘پہاڑ پر چڑھنے کے لیے اپنا راستہ بنانے یعنی رسی کو فکس کرنا ایک بہت مشکل اور وقت طلب کام ہوتا ہے جسے ٹیم کی صورت میں دو تین لوگ کرتے ہیں۔ ایک بندہ آگے جا کر کرتا ہے پھر دوسرا آتا ہے وہ کرتا ہے۔ پھر جب فکس ہوجائے ایک مخصوص جگہ تک تو پھر واپس کچھ میٹر تک جا کر کیمپ لگایا جاتا ہے۔
سونا کہتے ہیں کہ ہم نے کے ٹو کو سر کرنے کے لیے تین بار مختلف کیمپوں تک آنا جانا کیا اور ہر بار 35 کلو سے زیادہ وزن اٹھایا اور پوری مہم میں چھ ہزار میٹر سے زیادہ رسی مجموعی طور پر استعمال ہوئی۔’ایک کوہ پیما کو اپنے ساتھ 35 کلو کا جو وزن اٹھانا ہوتا ہے وہ مختلف لیکن ضروری اشیا پر مبنی ہوتا ہے جن کے بغیر مہم جوئی ممکن نہیں ہو پاتی۔
ڈیڑھ دو کلو وزن تو اس کھانے کا ہوتا ہے جو بیس کیمپ سے تیار ہو کر بھجوایا جاتا ہے۔سونا شرپا نے بتایا کھانے میں دال، چاول، گوشت ہوتا ہے جو وہ کیمپوں میں بیٹھ کر تناول کرتے ہیں۔
‘چڑہائی کے دوران کوہ پیما چاکلیٹ بار کا استعمال کرتے ہیں اور شرپا عام طور پر بسکٹ زیادہ رکھتے ہیں جبکہ کچھ پاپ کارن استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیس کیمپ سے اوپر کیمپ تک پکے ہوئے کھانے لے جاتے ہیں۔’ایسا بھی ہوتا ہے کہ کھانے کی وجہ سے اس قسم کے موسم اور انتہائی اونچائی میں بدہضمی اور معدے میں تکلیف ہو جاتی ہے۔ لیکن سونا کہتے ہیں اس مہم میں ہمیں کوئی بھی مسئلہ نہیں ہوا اور کھانا بنانے والوں اور پہنچانے والوں کے شکرگزار ہیں۔جہاں تک آرام کرنے اور سونے کی بات ہے تو اس بارے میں سونا شرپا نے بتایا کہ اس کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔
‘جب بھی اوپر کی جانب کیمپ لگانا ہوتا ہے تو صبح کے وقت کام کرنا ہوتا ہے۔ جیسے چوٹی پر جانے کے لیے ہم نے 16 جنوری کی صبح ایک بجے چڑھنا شروع کیا۔ ‘کسی ساتھی کو چوٹ لگ جانا اور پھر اس کی مدد کے لیے رکنا بہت جذباتی اور صبر آزما لمحات ہوتے ہیں۔سونا کہتے ہیں کہ انھیں تو کوئی چوٹ نہیں آئی لیکن ان کے ایک ساتھی کو چٹان گرنے سے سر پر چوٹ لگی اسی طرح نمس پرجا کو بھی بائیں ہاتھ میں تھوڑا سا فراسٹ بائٹ ہوا۔اس سوال پر کہ اس مہم کا سب سے مشکل مرحلہ کون سا تھا تو سونا نے بتایا کہ سب سے کٹھن گھڑی وہ تھی جب ‘ہم کیمپ تھری پر چار جنوری کو پہنچے تو موسم بہت بگڑا ہوا تھا ۔ سب کیمپ اڑ گئے ادھر ادھر بکھر گئے۔ آکسیجن کی بوتلیں بھی گم ہو گئیں۔ شدید ٹھنڈ تھی۔ وہ سب ہمیں دوبارہ پھر سے کرنا پڑا تھا۔’
وہ کہتے ہیں کہ اس موقع پرانھیں دو گھنٹے تک دیگر ساتھیوں کا انتظار کرنا پڑا۔’کبھی میں آکسیجن کو دیکھ رہا تھا، کبھی کسی اور چیز کو دیکھ رہا تھا وہ تھوڑی پریشانی کا موقع تھا۔ہم 30 سے 35 کلوگرام بھاری سامان اٹھائے ہوئے تھے۔ مجھے یہ گھبراہٹ تھی کہ کہیں فراسٹ بائٹ نہ ہو جائے، ایک بندے کو کچھ ہو گیا تو پوری ٹیم کو مسئلہ ہو گا۔ میں اپنے لیے کم سوچ رہا تھا پوری ٹیم کی فکر میں تھا۔ ہم نے دوسرے کوہ پیما منگما جی اور نمس پرجا سب کے ساتھ مشاورت کے ساتھ چلنا تھا۔’
پہاڑوں کو سر کرنے والے مہم جوؤں کو ان کے ملکوں اور ان کے ناموں کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی مدد کرنے والے ہمالیائی خطے کی مکین شرپا کمیونٹی ہو یا دیگر مددگار وہ سب کہیں پسِ منظر میں چلے جاتے ہیں۔
لیکن اس بار کے ٹو کو سر کرنے والے دس کے دس مہم جوؤں کا تعلق نیپال سے ہے جن میں سے آٹھ کا تعلق شرپا کمیونٹی سے ہے۔سونا شرپا نیپال کے مکالو خطے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے اپنے علاقے میں دنیا کی پانچویں بلند ترین چوٹی مکالو موجود ہے اور انھوں نے کوہ پیمائی کا سلسلہ 2003 میں شروع کیا تھا۔ان کا کہنا ہے ک ہم پڑھتے لکھتے نہیں ہیں اور زیادہ تر بچے بڑے ہو کر گائیڈ بنتے ہیں اور مہم جوئی کرتے ہیں۔تو کیا اس شعبے میں گزر بسر اچھی ہو جاتی ہے؟ اس سوال پر سونا نے کہا کہ اگر آپ اچھے مہم جو ہو تو سیزن میں آٹھ سے نو ہزار ڈالر کما لیتے ہو لیکن یہ کام بہت خطرناک ہے۔ کوئی غلطی ہوئی تو آپ کی جان جا سکتی ہے۔
‘آپ اس شعبے سے لکھ پتی اور کروڑ پتی نہیں بن سکتے۔ ہاں اچھا گزارا ہو جاتا ہے۔ اکھٹا پیسہ ملتا ہے پھر وہ لگ بھی جاتا ہے۔’انھوں نے بتایا کہ دنیا میں شرپا بہت کم ہیں اور نیپال کی آبادی میں فقط ایک فیصد شرپا بھی نہیں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ اتنی کم تعداد ہو کر بھی مہم جوئی میں مدد دیتے ہیں تو ان کی بھی شناخت اور پہچان ہونی چاہیے۔’یہ ٹھیک ہے کہ غیر ملکی مہم جو کہتے ہیں کہ ہم نے پیسے دیے ہیں، لیکن وہ ہمیں بحیثیت ورکر سمجھتے ہیں۔ کے ٹو کے سر کیے جانے کے بعد ہم نے ثابت کیا ہے کہ یہ ہماری کمیونٹی کی کامیابی ہے اور اگر شرپا کو مہم جوئی کے لیے چھوڑ دیا جائے تو وہ ناممکن کو مکمن بنا سکتے ہیں۔’نمس پرجا کی ٹیم کے ایک رکن کوہ پیما گیلجین شرپا کے لیے کے ٹو کا تجربہ نیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘میرے لیے تمام پہاڑ مشکل ہیں۔ ہاں لیکن کے ٹو یقینی طور پر سخت تر رہا ہے۔’
گیلجین شرپا اب ایک نیا ریکارڈ بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ آٹھ ہزار میٹر والی تمام چوٹیوں کو سر کرنے والے کم عمر ترین کوہ پیما بنیں۔’لیکن میں بہت خوش ہوں کہ نیپالی ٹیم نے کے ٹو کو سر کیا ہے۔ میں نے سب چوٹیاں سر نہیں کیں لیکن کے ٹو سے زیادہ چیلنجنگ، زیادہ مزا دینے والا اور زیادہ تکنیکی پہاڑ کوئی نہیں اور میرا پسندیدہ بھی یہی رہے گا۔’یہ کوہ پیما ابھی کے ٹو بیس کیمپ میں ہی ہیں اور کہتے ہیں کہ ابھی دیگر لوگ پہاڑ سر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ ان کی ضرورت کے لیے وہیں رکیں گے۔
کے ٹو کے بیس کیمپ سے بہت دور نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھے تھانیسپر گورا گئی پل پل موسم کی خبر اور کوہ پیماؤں کی نقل و حرکت کو نوٹ کر رہے تھے اور بیس کیمپ پر موجود کوہ پیما اور سیون سمٹ ٹریکس ٹیم کے رہنما داوا شرپا کو آگاہ کر رہے ہیں۔’اس سے انکار نہیں کہ یہ سب سے سخت ترین فیصلہ تھا جس میں پر عزم اور مثبت رہنے کا ایک بڑا تجربہ ہوا۔ ان سب نے داوا کا خواب پورا کر دیا ہے جو انھوں نے گذشتہ برس مارچ میں دیکھا تھا، ایک ناممکن کو ممکن بنانے کا خواب جس کی 16 جنوری کو تعبیر ہوئی۔’
نیپالی شرپاؤں کے اس کارنامے کی تاریخی حیثیت کے بارے میں جب بی بی سی نے امریکی کوہ پیما ایلن آرنیٹ سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ انھیں بہت خوشی ہے کہ ان شرپاؤں نے موسم سرما میں کے ٹو کو سر کیا۔’دنیا بھر میں وہ کوہ پیماؤں کی مدد کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن آج تک موسم سرما میں کسی بھی آٹھ ہزار میٹر بلندی والی چوٹی پر انھیں نھیں لے جایا گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتنی صلاحیت والے ہیں۔’
2014 میں K 2 سر کرنے والے ایلن آرنیٹ کا کہنا تھا کہ آٹھ ہزار میٹر سے بلند کسی بھی چوٹی کا موسم سرما میں سر کرنا انتہائی قابل فخر کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ اس موسم میں سرد ترین ہوا چلتی ہے اور ایسی قیامت خیز سردی ہوتی ہے جسے بہت ہی کم انسان برداشت کر سکتے ہیں لیکن اس نیپالی ٹیم نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ کرنا ممکن ہے۔نیپالی ٹیم نے اپنی اس مہم میں آکسیجن ٹینک کا استعمال کیا جس کے باعث کچھ افراد نے ان پر تنقید بھی کی۔ اس سوال پر کہ کوہ پیمائی کرنے والوں میں کئی ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ آکسیجن کے مدد سے چوٹی سر کرنا درست نہیں ہے، ایلن آرنیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ آکسیجن کا استعمال کرنا کسی کا ذاتی فیصلہ ہے۔
‘کوہ پیمائی کی کوئی باضابطہ تنظیم تو ہے نہیں جو ایسے قواعد طے کرے، تو میرے خیال میں یہ لوگوں کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے۔ لیکن زیادہ تر لوگ اس کارنامے کو سراہیں گے اور حقیقت یہ ہے کہ آکسیجن کے ساتھ یا بغیر، یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی نے کے ٹو کو اس موسم میں سر کیا۔ انھوں نے تاریخ رقم کی ہے۔’

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button