افغان طالبان نے پاکستان کی طرح چین کو بھی ماموں بنا دیا


کہا جا رہا ہے کہ افغان طالبان نے برسر اقتدار آنے کے بعد اپنی سرزمین ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال نہ کرنے کے وعدے سے پھر تے ہوئے پاکستان کے بعد اب چین کو بھی ماموں بنا ڈالا ہے۔
یاد رہے کہ طالبان نے افغانستان میں معدنیات کی تلاش اور انفراسٹرکچر کی بحالی پر بھاری سرمایہ کاری کرنے کے عوض چین سے سنکیانگ کے علیحدگی پسند مسلمانوں سے نمٹنے اور مطلوب جہادیوں کو اس کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس سے پہلے طالبان نے پاکستان سے بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ برسر اقتدار آنے کے بعد افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ تاہم بعد ازاں طالبان نے اپنے وعدے سے پھرتے ہوئے ہاتھ کھڑے کردیے اور پاکستان پر واضح کیا کہ ٹی ٹی پی اس کا اندرونی معاملہ ہے اور افغان حکومت انہیں کنٹرول کرنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتی۔
پاکستان کی طرح اب چین کو بھی ان اطلاعات سے بڑا دھچکا لگا ہے کہ طالبان نے ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ سمیت وسطی ایشیائی خطے سے تعلق رکھنے والے شدت پسند جہادیوں کے افغانستان میں موجود نیٹ ورک نہ چھیڑنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ یہ لوگ امریکہ کے خلاف جنگ میں اس کے اتحادی تھے۔ یاد رہے کہ پہلے چین کے مسلمان جہادیوں نے پاکستان کے علاقے وزیرستان میں اپنا نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا جو 2014 کے فوجی آپریشن کے بعد تربتر ہو کر افغانستان منتقل ہو گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ افغان طالبان مستقبل میں انہیں جہادیوں کو چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ چین کو یہ مصدقہ اطلاعات ملی ہیں کہ اپنے وعدے کے بر عکس افغان طالبان نے اسلامک موومنٹ آف ازبکستان سے تعلق رکھنے والے جہادیوں کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی اور سنکیانگ کے مسلم شدت پسندوں نے بدخشان میں اپنے ٹھکانے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
چین کو ملنے والی انٹیلی جنس اطلاعات کے مطابق وسطی ایشیا اور سنکیانگ کے سینکڑوں شدت پسند افغان صوبے بدخشان کے پہاڑی دیہات میں موجود ہیں، جو تاجکستان، پاکستان اور چین سے ملتے ہیں۔ واضح رہے کہ چین کو اپنے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں ایسٹ ترکستان موومنٹ نامی علیحدگی پسند تحریک کا سامنا ہے جس کی قیادت اور ہزاروں شدت پسند گذشتہ کئی دھائیوں سے طالبان کے مہمان بنے ہوئے ہیں۔ چین نے افغانستان میں طالبان حکومت کی سیاسی اور سفارتی حمایت اس ںطریئے سے کی طالبان وعدے کے مطابق چین کو مطلوب شدت پسند اس کے حوالے کریں گے اور ساتھ ہی چین کو افغانستان کی صورت میں ایک نئی منڈی بھی دستیاب ہوگی ۔ چین نے افغانستان میں انڈیا کی جگہ لیتے ہوئے معدنیات کی تلاش اور انفراسٹرکچر کی بحالی جیسے کاموں میں بھی دلچسپی دکھائی تھی، تاہم اب طالبان کی جانب سے سنکیانگ کے علیحدی پسندوں سے متعلق غلط بیانی اور وعدہ خلافی نے چین کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی پر مجبور کردیا ہے۔
واضح رہے کہ طالبان نے حالیہ برسوں میں خاص طور پر قطر میں فروری 2020 میں امریکہ کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کے بعد سے اپنی صفوں میں غیر ملکی جنگجوؤں کی موجودگی سے انکار کیا ہے اور ان کے ترجمان نے بار بار دعویٰ کیا کہ ایک بھی غیر ملکی طالبان میں شامل نہیں ہے۔ دوسری جانب 2 جون 2021 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان کی سکیورٹی کی صورت حال پر ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں غیرملکی دہشت گرد گروہوں بشمول اسلامی تحریک ازبکستان، القاعدہ، مشرقی ترکستان اسلامی تحریک یا ای ٹی آئی ایم، امام بخاری گروپ، جماعت توحید، داعش اور اس ملک میں انصار اللہ آبادی کا ذکر کیا۔ اس رپورٹ میں سب سے زیادہ قابل ذکر بات افغانستان کے صوبہ بدخشان میں وسطی ایشیا اور چین کے شدت پسندوں کی وسیع پیمانے پر موجودگی ہے۔ بدخشان کی تاجکستان کے ساتھ سرحد ہے اور یہاں تک کہ ایک مشترکہ بازار بھی ہے۔ اس کی چین اور پاکستان کے ساتھ پہاڑی علاقے پر مبنی سرحد ہے۔ چین اور وسطی ایشیا میں شدت پسند تین جہادی دھاروں کے گرد سرگرم ہیں جن میں اسلامی تحریک ازبکستان، اسلامی تحریک مشرقی ترکستان اور تاجک جماعت الانصار شامل ہیں۔ یہ تینوں تنظیمیں وسطی ایشیا اور چینی صوبے سنکیانگ میں اپنے مطلوبہ اسلامی نظام کے قیام کے لیے لڑنے والے اہم دھاروں میں شامل ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بدخشان کو ان دہشت گردوں کی پناہ گاہ کے طور پر منتخب کرنا وسطی ایشیائی ممالک اور چین سے نمٹنے میں طالبان کے نظریے پر روشنی ڈال سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلامی تحریک ازبکستان، مشرقی ترکستان اسلامی تحریک اور جماعت الانصار کے، جو اس وقت بدخشان میں مقیم ہیں، ارکان اس سے قبل شام اور عراق میں لڑ چکے ہیں۔ مشرقی ترکستان اسلامی تحریک کی قیادت قازق قوم کے حاجی فورکان کر رہے ہیں، جو پہلے القاعدہ کے کمانڈر رہ چکے ہیں۔ یہ تحریک صوبہ بدخشان کے شہر کران اور مانجان میں سینکڑوں ایغور جنگجوؤں پر مشتمل ہے۔ یہ گروپ چین پر حملہ کرنے اور چینی ایغوروں کے لیے ایک آزاد اسلامی حکومت بنانے کے لیے سرگرم رہا ہے۔ وسطی ایشیا، پاکستان اور افغانستان سے بھی درجنوں جنگجو اس گروپ میں شامل ہوئے ہیں۔

Related Articles

Back to top button