125 برس بعد سکھ یادگار کی تعمیر کے لیے سکھ فوجیوں کی آمد


14 اگست 1947 کو پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے پہلی مرتبہ برطانوی سکھ فوجیوں کے ایک وفد نے پاکستان کے قبائلی ضلع اورکزئی کا دورہ کیا ہے اور وہاں 1897 میں مارے جانے والے برطانوی سکھ فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

یاد رہے کہ خیبر پختونخوا میں ضم ہو جانے والی اورکزئی ایجنسی کے علاقے سرہ گڑی میں سمانہ قلعہ کی چوکیوں پر 1897 میں انگریز افواج اور مقامی افغان قبائل کے مابین تاریخی لڑائی میں برطانوی فوج کی طرف سے لڑتے ہوئے برطانوی فوج کے مطابق سکھ رجمنٹ کے 21 سپاہیوں نے 10 ہزار سے زائد قبائلیوں کا مقابلہ کیا تھا۔ برطانوی سکھ فوجیوں کے وفد نے بتایا کہ جب سے پاکستان بنا ہے یہ پہلا برطانوی سکھ فوجیوں کا وفد ہے جس نے سرہ گڑی کا دورہ کیا اور یہاں آ کر یادگاری تختیاں نصب کیں۔

برٹش سکھ فوجی وفد کے پاکستان آنے کا بنیادی مقصد سرہ گڑی جنگ میں مارے جانے والے سکھ فوجیوں کو نذرانہ عقیدت پیش کرنا تھا۔ سکھ فوجیوں سے ملنے والی معلومات کے مطابق خیبر پختونخوا میں ضم شدہ اورکزئی ایجنسی کے علاقے سرہ گڑی میں 1897 میں اس وقت کی برٹش انڈیا فوج میں بھرتی ہونے والے سکھ فوجیوں نے افغانستان کے قبائلیوں کے ساتھ لڑائی میں بہادری کامظاہرہ کرتے ہوئے قلعے کی فوجی چوکیوں کا آخری سانس تک دفاع کیا اور مارے گئے۔ برطانوی سکھ فوجی وفد اپنے ساتھ اپنا سیمنٹ لے کر آیا تھا تا کہ وہ خود یادگار تعمیر کرسکیں۔ نوجوان سکھ فوجیوں نے خود اینٹیں جمع کیں، سیمنٹ لگائی اور یادگار بنا کر اُس پر تختی نصب کرنے کے بعد پھول بھی چڑھائے۔ انہوں نے مذہبی رسومات کے ساتھ سوا سو برس قبل مارے جانے والے فوجیوں کو نذرانہ عقیدت پیش کیا۔

برطانوی وفد میں پردیپ سنگھ نامی ایک سکھ خاتون فوجی بھی شامل تھیں، جو سر پہ دوپٹہ لیے یادگار پر مذہبی رسومات ادا کر رہی تھیں۔ فوجی چوکی پر 125 سال پہلے ہونے والے واقعے کی یاد کی وجہ سے اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ پردیپ سنگھ نے کہا کہ ’کچھ بولا نہیں جا رہا کیوں کہ بہت جذباتی دن ہے۔ صرف اتنا ہی کہوں گی کہ پاکستان آرمی کا بھی شکریہ جنہوں نے ہمیں یہاں بلایا، اتنی مہمان نوازی کی اور یہ موقع فراہم کیا۔‘

پاکستان آنے والا برطانوی فوجی وفد 12 رکنی تھا جس کی قیادت میجر جنرل سیلیہ ہاروے نے کی۔ انہوں نے بتایا کہ نو سکھ فوجیوں کو، جن میں ایک خاتون فوجی بھی شامل ہیں، لے کر وہ پہلی بار پاکستان آئی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پاکستانی آرمی چیف نے انہیں اس دورے کی دعوت دی اور انتظامات کیے۔ دورے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بہادر برطانوی سکھ فوجیوں کی قربانی کو نام دینے آئے ہیں۔

مرنے والے سکھ فوجیوں نے 1897 میں سرہ گڑی چوٹی پر موجود رابطے کے فوجی ٹاور کا دفاع کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں پر بنیادی طور پر دو قلعوں کی فصیلیں تھیں۔ میرے ایک طرف قلعہ گلستان اور دوسری جانب قلعہ لوکھارٹ ہے۔ اس رابطہ ٹاور پر اُن پر 10 ہزار قبائلیوں کی جانب سے حملہ ہوا تھا۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ 21 فوجیوں نے ٹاور کا دفاع کرتے ہوئے دس ہزار قبائلیوں کا مقابلہ کیسے کیا ہو گا؟ انہوں نے بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے چھ سو کے قریب دشمنوں کو مارا اور آخری آدمی تک ٹاور کا دفاع کیا۔‘ میجر دلجندر سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس مقام پر واقعے کی کوئی یادگار نہیں تھی۔ ہم چاہتے تھے کہ یہاں آ کر کچھ بنا کر جائیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں میرے پیچھے، ایک یادگار بنا دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو سال پہلے ایک پاکستانی فوجی افسر کی ہم سے برطانیہ میں بات ہوئی تھی وہ ہمارے ساتھ وہاں کورس پر تھے۔ انہوں نے مجھے کہا تھا کہ سردار جی، کیوں نا آپ ننکانہ صاحب کے درشن کرائیں؟ تو بس وہ جو ہماری بات چیت دو سال پہلے ہوئی تھی۔ تو اب آج دو سال بعد ہم یہاں کھڑے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے حوالے سے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’وہی پنجاب ہے جو اُس طرف ہے ویسا ہی اِدھر ہے، کھانا زبان اور کلچر بھی ایک ہی ہے۔ خوش قسمت ہیں کہ ننکانہ صاحب اور پنجہ صاحب پہ ماتھا ٹیکنے کا موقع ملا۔‘

ایک اور برطانوی سکھ فوجی اوپندرجٹ سنگھ اتوال نے بتایا کہ میرے پردادا بھی اسی سرزمین سے تھے اور میرے دادا کی پیدائش بھی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد وہ انڈیا چلے گئے تھے۔ لیکن اُن کے ایک بھائی ابھی بھی اِدھر ہی ہیں۔ دیکھتے ہیں انہیں ڈھونڈتے ہیں اگر وہ مِل گئے۔

یاد رہے کہ سطح سمندر سے تقریباً چھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع سمانہ ضلع ہنگو اور اورکزئی ایجنسی کا ایک چھوٹا سا سرحدی اور تاریخی گاؤں ہے۔ سیاحتی مقام کے ساتھ ساتھ اس کی ایک تاریخی حیثیت بھی ہے۔ پاکستان بننے سے قبل یہ پہاڑی مقام انگریزوں کا ایک مسکن تھا جہاں سے برطانوی افواج نے افغانستان پر نظر رکھنے اور قبائل کو کنٹرول کرنےکے لیے تین بڑے بڑے تاریخی قلعے تعمیر کیے تھے جن کی تباہ شدہ عمارتیں آج بھی اسی طرح قائم ہیں۔ ان قلعوں میں سرہ گڑھی، فورٹ لوکارٹ اور گلستان شامل ہے۔ ان میں سے ایک قلعہ ختم ہوچکا ہے جبکہ دو قلعے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے کنٹرول میں ہیں۔

خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والی اورکزئی ایجنسی کے علاقے سرہ گڑی میں سمانہ قلعہ کی چوکیوں پر 1897 میں انگریز افواج اور مقامی افغان قبائل کے مابین ایک تاریخی لڑائی ہوئی تھی جس میں برطانوی انڈین آرمی کی طرف سے لڑتے ہوئے سکھ رجمنٹ کے 21 سکھ سپاہیوں نے دس ہزار سے زائد قبائلیوں کا مقابلہ کیا تھا۔ جس کے بعد ہندوستان حکومت نے 1901 میں ان سکھ فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یادگار تعمیر کر کے وہاں تختی نصب کی جس پر اُن تمام سکھ فوجیوں کے نام اور رینک درج ہیں۔ سکھوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جو یادگار تیار کی گئی تھی اس میں وہی اینٹیں استعمال کی گئیں جو اُن فوجی چوکیوں اور ٹاور میں لگی ہوئی تھیں۔ بعد ازاں ان 21 سکھ سپاہیوں کی بہادری اور آخری دم تک لڑنے پر کئی کتابیں بھی لکھی گئیں، ان میں سے ایک کتاب کا نام تھا ’بھولی ہوئی جنگ’ جس پر بھارت نے ایک فلم بھی بنائی۔

Related Articles

Back to top button