محبت، خواب اور امید پیہم کا پیام بر .. امجد اسلام امجد

اردو کے نامور  شاعر ، ادیب،  ڈرامہ نگار اور استاد امجد اسلام امجد دس فروری کے روز لاہور میں انتقال کر گئے ۔اس طرح اردو ادب کے آسمان پر چمکنے والا پاکستان کا یہ روشن ستارہ 78 برس کی عمر  میں اپنے رب کے حضور پیش ہو گیا ۔اردو ادب اور ڈرامہ نگاری میں ان کی شاندار اور ناقابل فرموش خدمات کے اعتراف میں انہیں پاکستان کے اعلیٰ ترین قومی اعزازات ہلال امتیاز ، ستارہ امتیاز، پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت درجنوں ادبی اور علمی ایوارڈز کا حقدار قرار دیا گیا ۔

امجد اسلام امجد چار اگست 1944 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ وہیں پلے بڑھے ، 1967 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا اور اس کے بعد شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئے۔وہ 1968 سے 1975 تک ایم اے او کالج لاہور کے شعبہ اردو سے بطور استاد  منسلک رہے۔اگست 1975 میں پنجاب آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر مقرر کیے گئے۔90 کی دہائی میں دوبارہ شعبہ درس و تدریس سے منسلک ہوئے اور ایم اے او کالج میں پڑھانا شروع کیا۔اس کے بعد وہ چلڈرن کمپلیکس لائیبریری لاہور  کے ڈائریکٹر بھی بنے اور وہیں سے ریٹائرڈ ہوئے۔اامجد اسلام امجد کا ادبی سفر لگ بھگ سات دھائیوں پر محیط رہا انہوں نے مسلم ماڈل سکول سے میٹرک کیا، نویں جماعت میں وہاں کے رسالے ”نشانِ منزل” کے ایڈیٹر بنے۔ فرسٹ ائیر میں ان کی تخلیقات  مختلف جرائد میں چھپنا شروع ہو گئیں۔ امجد نے انٹر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے کیا۔ تب تک کرکٹ میں بہت دلچپسی رکھتے تھے، بی اے اسلامیہ کالج سول لائینز اور ایم اے پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج سے کیا۔ وہاں ابھی پڑھنا شروع کیا تھا کہ ستمبر کی جنگ شروع ہو گئی، اس پر امجد اسلام امجد نے ایک نظم لکھی جو احمد ندیم قاسمی کے پرچے فنون میں چھپی۔ یہ شاعری میں ان کی اہم پیشرفت تھی۔امجد اسلام امجد پنجاب یونیورسٹی لٹریری سوسائٹی کے چئیر مین اور یونیورسٹی کے رسالے “محور” کے چیف ایڈیٹر بھی  رہے۔ امجد اسلام امجد کی نوجوانی کے زمانے میں ہر کوئی کرکٹر بننے کے خبط میں مبتلا تھا، یہی جنون ان پر بھی سوار ہوا لیکن جب اس کھیل میں انہیں یکے بعد دیگرے ناکامیاں ملیں تو انہوں نے کرکٹر بننے کا ارادہ ترک کردیا۔

 

دوسری جانب انہوں نے گریجویشن میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرلیے ،جس بنا پر انہیں اسکالر شپ مل گئی اور اس طرح ان کی تمام تر توجہ شعرو ادب کی طرف ہوگئی۔ شا عری کی بات کریں تو  امجد نے نظم بھی کہی غزل بھی کہی گیت بھی لکھے  اور آزاد شاعری میں بھی طبع آزمائی کی مگر نظم میں ان کو ایک خاص مقام حاصل تھا ،پی ٹی وی کے لئے میزبان سینئر صحافی عمران میر کو انٹرویو دیتے ہوۓ امجد اسلا م امجد نے تسلیم کیا کہ وہ خود کو نظم کا بہتر شا عر  سمجھتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ کلاسیکی شعرا کو پڑھنے کے بعد ہی آپ موجود ہ دور کی شاعری کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں مگر بد قسمتی سے بھارت تو کیا اب پاکستان میں بھی اردو سکرپٹ یعنی عربی رسم الخط ختم ہوتا جا رہا ہے اس کی جگہ رومن رسم الخط لے رہا ہے اردو کا شمار دنیا کی ان چند زبانوں میں ہوتا ہے جو زیادہ بولی جاتی ہیں لیکن جہاں تک سکرپٹ کی بات ہےتو اس کا  ختم ہو رہا ہے حالانکہ ہمیشہ سکرپٹ ہی کسی زبان کو زندہ رکھتا ہے۔

امجد اسلام امجد کا تعارف صرف نظمیں اور غزلیں ہی نہیں بلکہ چشم کشا کالم ،  مقبول ترین  ڈرامے اور فلمیں بھی رہے ، جنہوں نے ایک عالم کو اپنا اسیر بنائے رکھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی  اب تک کی  سب سے کامیاب اور مقبول ڈرامہ سیریز وارث کہلاتی ہے ، 1980ء میں جب یہ ڈرامہ نشر ہوتا تھا تو بلا مبالغہ شہروں کی گلیاں سنسان ہو جاتی تھیں اس  شہرۂ آفاق ڈرامے کو لکھنے والے امجد اسلام امجد ہی تھے ۔ اس کے علاوہ دن، فشار، انکار اور دیگر بہت سے مقبول ڈرامے ان کے نوک قلم سے لکھے گئے ، انہوں نے  پانچ مرتبہ ٹیلی وژن کے بہترین رائٹر، سولہ مرتبہ گریجویٹ ایوارڈ حاصل کیے ،بیسٹ فلم رائٹر کا نگار ایوارڈ انہیں دو مرتبہ ملا۔

امجد کی شاعری میں استعارے خواب ، چھاؤں ، عکس، سائے، سفر کی صورت میں نظر آتے ہیں۔     بارش کی آواز……..  شام سرائے….  اتنے خواب کہاں رکھوں …….. نزدیک ……..  یہیں کہیں….   ساتواں در  …….   فشار  …….  سحر آثار  ……  ساحلوں کی ہوا ….   محبت ایسا دریا ہے…. برزخ ، اس پار ان کی چند مشور کتابیں ہیں ۔ اس کے علاوہ امجد اسلام امجد کا شعری مجموعہ ’برزخ‘ اور جدید عربی نظموں کے تراجم ’عکس‘ کےنام سے شائع ہوئے، ان کا افریقی شعراء کی نظموں کا ترجمہ ’کالے لوگوں کی روشن نظمیں‘ کے نام سے شائع ہوا جبکہ تنقیدی مضامین کی کتاب ’تاثرات‘ بہت مشہور ہوئی۔  امجد کی  کی مطبوعہ کتابوں کی تعداد 50 سے زائد ہے اور ابھی کئی کتب زیر طبع ہیں ۔

شعر و سخن کے عہد کی بات کریں تو ہم واقعی عہد امجد میں جیتے  رہے ،  امجد اسلام امجد نے زمین پر تو صرف آٹھ دہائیاں گزاریں لیکن ان کا ذہنی اور تخلیقی سفر سات صدیوں کا سفر ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ محبت ، خواب،  شہر دل ، خیال ، رنج وملال ، امید پیہم کی راہ گزر سے گزرنے والی یہ نابغہ روزگار ہستی رہتی دنیا تک سخن سرا رہے گی اور ہماری تہذیب کے استعاروں کو نئی راہیں دکھاتی رہیں گی۔

Related Articles

Back to top button