کیا عامر لیاقت حسین کو 25 کروڑ کی خاطر قتل کیا گیا؟

سندھ ہائی کورٹ نے عامر لیاقت کے خلاف خلع کا دعویٰ دائر کرنے والی ان کی تیسری اہلیہ دانیہ شاہ کی جانب سے مرحوم کی پراسرار موت کی وجوہات جاننے کے لیے پوسٹ مارٹم کروانے کی درخواست منظور کر کے کاروائی شروع کر دی ہے۔ دانیہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ عامر لیاقت کی موت اس لیے مشکوک ہے کہ انتقال کے روز ان کے پاس 25 کروڑ روپے کی خطیر رقم موجود تھی جو ان کے قتل کی وجہ ہوسکتی ہے چونکہ اس رقم کا اب کوئی اتا پتہ نہیں۔ دانیہ شاہ نے عامر لیاقت کے بیٹے اور بیٹی کی درخواست پر ان کی قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم روکنے کے عدالتی حکم کے خلاف درخواست دائر کی ہے۔

19 جولائی کو دانیہ شاہ کی والدہ سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں اور بتایا میں عامر لیاقت حسین کی ساس ہوں، میری بیٹی دانیہ شاہ عامر لیاقت کی اہلیہ تھیں جو یہ حق رکھتی ہیں کہ شوہر کی موت کی وجہ جان سکیں، ان کا کہنا تھا کہ عامر

گستاخانہ بیان، بھارتی عدالت عظمیٰ کا نوپور شرما کو گرفتار نہ کرنے کا حکم

لیاقت حسین بڑی شخصیت تھے، اور ان کی موت پراسرار حالات میں ہوئی ہے لہذا ان کی موت کی وجہ کا پتہ چلنا چاہئے۔

عامر لیاقت حسین کی پہلی اہلیہ ڈاکٹر بشریٰ کے بطن سے پیدا ہونے والے بیٹے اور بیٹی کے وکیل ضیا اعوان نے پوسٹ مارٹم کی مخالفت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ مرحوم کے طبی معائنے کے دوران معلوم ہوا تھا کہ عامر لیاقت حسین کے جسم پر کسی قسم کے کوئی زخم نہیں تھے جبکہ بیٹا اور بیٹی پوسٹ مارٹم نہیں کروانا چاہتے، انہوں نے پوسٹ مارٹم نہ کروانے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا بھی پوسٹ مارٹم نہیں کرایا گیا تھا۔ اس پر عدالت کا کہنا تھا بی بی شہید کا پوسٹ مارٹم نہ کرانے پر آج تک سب افسوس کر رہے ہیں کیونکہ ان کی موت کی اصل وجہ اب تک معلوم نہیں ہو پائی، عدالت کی جانب سے پوچھا گیا کہ بیٹی اور بیٹا والد کے پوسٹ مارٹم پر کیوں اعتراض کر رہے ہیں، اس کے بغیر کیسے پتہ چلے گا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا، عدالت کے مطابق قانون میں کسی کی مرضی نہیں صرف قانون چلتا ہے۔

ضیا اعوان نے عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر غلط معلومات دی گئی ہیں کہ عامر لیاقت کے جسم پر کوئی نشان تھا، جس پر عدالت نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ پوسٹ مارٹم نہ کرانے پر کیوں اصرار کر رہے ہیں؟کون سا قانون ہے، اور کس فقہ میں منع کیا گیا ہے، ہمارے سامنے قانونی اور اسلامی نکات رکھیں، عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ ہم جلدی نہیں کریں گے، سب کو سنیں گے، بعدازاں عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تیاری کر کے آنے کی ہدایت کی اور سماعت کے لیے 28 جولائی کی تاریخ مقرر کر دی۔

بعد ازاں دانیہ شاہ کی والدہ نے سندھ ہائی کورٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ عامر لیاقت کو کہیں سے 25 کروڑ روپے ملے تھے، وہ اسلام آباد سے کراچی 25 کروڑ روپے لینے آئے تھے، موت والے دن وہ ایک بجے واپس اسلام آباد جا رہے تھے، 10 منٹ بعد ان کی موت کیسے ہوگئی؟ انہوں نے کہا کہ عامر لیاقت کے پاس 25 کروڑ روپے تھے، اس بات کی گواہ ان کی بیوی ہے لیکن ان کی موت کے بعد ان پیسوں کا کوئی اتا پتا نہیں۔

اس موقع پر دانیہ شاہ کے وکیل نے کہا کہ ہم عدالت میں اس حوالے سے شواہد پیش کریں گے، دانیہ شاہ کی والدہ نے مزید کہا کہ عامر لیاقت کی موت کا جائزہ لینا ضروری ہے، یہ لوگ عامر لیاقت کی موت کو چھپا رہے ہیں، ہم عدالت آگئے ہیں اور عدالت ہی انصاف دے گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ سندھ ہائی کورٹ نے عامر لیاقت حسین کی قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کا فیصلہ ان کے بیٹے احمد عامر اور دعا عامر کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کے بعد معطل کردیا تھا اور فریقین کو نوٹس بھی جاری کردیئے تھے۔ اس سے قبل کراچی کی مقامی عدالت نے ایک شہری کی درخواست پر 18 جون کو عامر لیاقت حسین کی قبر کشائی کرکے پوسٹ مارٹم کرنے کا حکم دیا تھا۔احمد عامر اور دعا عامر کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ عامر لیاقت حسین کے پوسٹ مارٹم کرانے کی درخواست شہرت حاصل کرنے کے لیے مجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں دائر کی گئی تھی۔

خیال رہے کہ سیدہ دانیہ شاہ اور عامر لیاقت حسین نے فروری 2022 میں شادی کی تھی اور محض تین ماہ بعد ہی دونوں نے ایک دوسرے پر شرمناک الزامات لگا کر سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کا نامناسب مواد بھی شیئر کیا تھا۔ اس دوران عامر لیاقت حسین کی کچھ قابل اعتراض ویڈیوز وائرل ہوئی تھیں جن کے بارے میں اہلیہ دانیہ شاہ نے دعویٰ کیا تھا کہ شوہر کی وائرل ہونے والی مبینہ برہنہ ویڈیوز انہوں نے نہیں، کسی تیسرے نے بنائیں اور انہیں بھی اس شخص نے ویڈیوز بھیجیں، شادی کے وقت دانیہ شاہ کی عمر 18 سال جبکہ عامر لیاقت حسین کی عمر 49 برس تھی، اہل خانہ کے پوسٹ مارٹم کرانے سے انکار کے بعد 10 جون کو عامر لیاقت کی تدفین پوسٹ مارٹم کے بغیر عبداللہ شاہ غازی مزار کے احاطے میں کردی گئی تھی۔

Related Articles

Back to top button