ایف بی آر حکام آزادانہ تحقیقات کی بجائے ہدایات پر عمل پیرا ہیں

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے افسران پر اپنی ساکھ اور آزادانہ طور پر کام کرنے کی صلاحیت سے محروم ہونے کا الزام عائد کردیا۔
سرینا عیسیٰ نے میڈیا میں جاری کردہ ایک صفحے پر مشتمل بیان میں الزام لگایا کہ ‘واضح طور پر، وہ (ایف بی آر افسران) ہدایات پر عمل کررہے ہیں’۔سرینا عیسیٰ نے اس بیان میں اس بات کی نشاندہی بھی کہ کس طریقے سے انہوں نے 21 جولائی کو ایف بی آر کے کمشنر ذوالفقار احمد کو ذاتی طور پر دوبارہ خط لکھا جو انہوں نے کمشنر ایف بی آر کے ‘جواب الجواب’ میں لکھا تھا۔خط میں انہوں نے اپنے 12 سوالات دوبار ہ پیش کیے جو انہوں نے 9 جولائی کو لکھے گئے اپنے پہلے خط میں اٹھائے تھے۔انہوں نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ میں ابھی بھی جوابات کا انتظار کر رہی ہوں۔
سرینا عیسیٰ نے بیان میں مزید کہا کہ انہوں نے اپنے ٹیکس ڈیکلیئریشنز کی کاپیاں دینے کی درخواست بھی کی تھی جو ان کے پاس نہیں ہیں کیونکہ جو شخص ریحان حسن نقوی کے توسط سے ان کے ٹیکس ڈیکلیئریشنز جمع کرواتا تھا اس کا انتقال ہوچکا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے مزید کہا کہ یہ تشویشناک ہے اور انہوں نے ‘مینوفیکچرنگ’ کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔سرینا عیسیٰ نے کہا کہ انہوں نے ایف بی آر کو سپریم کورٹ میں 20 جولائی کو دائر کی گئی نظرثانی درخواست سے بھی آگاہ کیا جس میں انہوں نے ایف بی آر کے کچھ افسران اور موجودہ حکومت کے اراکین جیسا کہ وزیر قانون فروغ نسیم، کمشنر (آئی آر) ذوالفقار احمد، ڈاکٹر محمد اشفاق احمد اور منظور احمد کیانی پر سنگین الزامات لگائے تھے۔
سرینا عیسیٰ کے یہ الزامات، بیان کے 18 پیراگرافس پر مشتمل تھے جو انہوں نے 9 جولائی کو ایف بی آر میں جمع کرایا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ ان پیراگرافس کی حمایت ایف بی آر اور حکومت کے اپنی دستاویزات سے کی گئی تھی لیکن اس پر کوئی جواب نہیں ملا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے کہا کہ انہوں نے ذوالفقار احمد کے دستخط کردہ پہلے نوٹس اور ایف بی آر کے جواب الجواب میں زبان کے واضح فرق کی نشاندہی بھی کی تھی۔بیان کے مطابق انہوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ وہ دونوں ایک شخص نے نہیں لکھے تھے لیکن ایک بار پھر کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی تھی۔سرینا عیسیٰ نے بتایا کہ انہوں نے یہ نشاندہی بھی کی تھی کہ کس طریقے سے لفظ ‘خفیہ’ کا مذاق اڑایا گیا جب ایک کھلا لفافہ اور اس کے ‘خفیہ’ مواد کی نمائش کرتے ہوئے ان کے شوہر کی رہائش گاہ کے دروازے پر چسپاں کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے تحریری طور پر ذوالفقار احمد کو آگاہ کیا تھا کہ میرے پاس اپنے 21 جولائی کا خط جاری کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا تاکہ لوگ خود فیصلہ کریں۔سرینا عیسیٰ نے مزید کہا کہ لیکن میں نے ابھی تک ان گوشواروں کی کاپیاں دیے جانے کا انتظار کیا جس سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ میں نے جمع کرائے تھے اور میرے خدشات سے متعلق کچھ معقول وضاحت بھی دی جاتی لیکن ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی کوئی جواب نہیں آیا۔21 جولائی کو لکھے گئے اپنے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ اپنی آمدن رضاکارانہ طور پر ڈیکلیئر کرنے اور ٹیکس ادا کرنے پر سراہے جانے کی بجائے ان پر حملہ کیا گیا۔انہوں نے پوچھا تھا کہ کیا یہ اس وجہ سے ہے کہ میں ایک عورت ہوں اور بد قسمتی سے عورت سے نٖفرت کرنے والے لوگ خواتین کی آزاد مالی حیثیت کا احترام نہیں کرتے؟
سرینا عیسیٰ نے پوچھا تھا کہ پاکستان میں کتنی غیر تنخواہ دار خواتین ٹیکس ادا کرتی ہیں، انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں کسی کو بھی اس معاملے میں گھسیٹنا نہیں چاہتی لیکن گزشتہ سال میں نے جاسوسی اور ہراسانی کو برداشت کیا اور مجھے ایک عام مجرم کی طرح محسوس کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔انہوں نے 21 جولائی کے خط میں کہا تھا کہ براہ کرم مجھ پر الزامات عائد نہ کریں اگر میں ایف بی آر سے کہتی ہوں کہ وہ مجھے وزیر اعظم، عبدالوحید ڈوگر، مرزا شہزاد اکبر، فروغ نسیم، انور منصور، ڈاکٹر محمد اشفاق احمد کے انکم ٹیکس ریکارڈ کی کاپیاں فراہم کرے کہ انہوں نے اپنے ٹیکس کاغذات میں اپنی بیویوں اور بچوں کی جائیدادیں ظاہر کی تھیں یا نہیں۔
خیال رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کا معاملہ مئی 2019 کے اواخر میں سامنے آیا تھا جس میں سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس میں جسٹس عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔صدارتی ریفرنس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی، ریفرنس دائر ہونے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے۔
بعد ازاں 7 اگست 2019 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو ذاتی طور پر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا اور 300 سے زائد صفحات پر مشتمل تفصیلی درخواست دائر میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ میرے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ درخواست پر فیصلہ آنے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔بعدازاں 19جون کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست کو منظور کرلیا تھا۔
یہ معاملہ گزشتہ سال مئی سے رواں سال جون تک تقریباً 13 ماہ تک چلا تھا، جہاں سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئی تھیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button