لیفٹیننٹ جنرل افضل کی فراغت کے پیچھے کیا کہانی چھپی ہے؟


اربوں روپے کے منصوبوں کی نگرانی کرنے والے چیئرمین نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمینٹ اتھارٹی یا این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل کی اچانک سبکدوشی کے بعد سوشل میڈیا پر چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ انہوں نے خود یہ عہدہ نہیں چھوڑا بلکہ ان سے کرپشن الزامات کے بعد استعفیٰ لیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انہیں شور مچانے کی بجائے خاموشی سے گھر بھجوا دیا گیا ہے تاکہ فوج کے ادارے کی مزید سبکی نہ ہو۔
یاد رہے کہ 10 دسمبر کے روز اچانک خبر آئی کہ لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل بطور چیئرمین نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی سبکدوش ہوگئے ہیں۔ پھر ایک پریس ریلیز جاری ہوئی کہ وزیراعظم عمران خان نے الوداعی ملاقات میں لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل کی خدمات کو سراہا اور مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ تاہم سوشل میڈیا کے مطابق این ڈی ایم اے میں مبینہ گھپلوں کے الزامات پر جنرل افضل زیر تفتیش تھے۔ پھر کرونا ہو جانے کی وجہ سے وہ کئی ہفتے منظر عام سے غائب رہے اور اب اچانک ان کی فراغت کی خبر سامنے آئی ہے جس پر سوشل میڈیا صارفین معنی خیز سوالات اٹھا رہے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے سربراہ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر وائرل ایک پوسٹ میں اس نکتے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ان سے این ڈی ایم اے کے ہاتھوں خرچ یونے والے 25 ارب روپے کے اخراجات کی تفصیلات مانگی تھی جو انہوں نے تاحال فراہم نہیں کی لیکن اب انہیں فارغ کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل سے سوال کیا تھا کہ آپ نے 25 ارب روپے خرچ کیے ہیں، ہمیں تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ آپ کو 25 ارب روپے ملے ہیں اور صوبوں کو بھی الگ سے بڑی رقم ملی ہیں۔ کیا آپ 25 ارب روپے کی خطیر رقم سے کثیر المنزلہ عمارتیں بنا رہے ہیں؟ اس کے بعد چیف جسٹس نے چیئرمین این ڈی ایم اے سے 25 ارب روپے کے اخراجات کی تفصیلات مانگی تھیں۔
سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے بھی این ڈی ایم اے سے کرونا کے سدباب کے لیے فراہم کردہ کروڑوں ڈالرز کی امداد کے حوالے سے سوالات کیے تھے جن کا جواب آنا ابھی باقی ہے۔
ٹویٹر پر مسلم لیگ ن کے رکن پنجاب اسمبلی اشرف رسول آزاد کے نام سے سے ایک اکاؤنٹ سے کی گئی ٹویٹ میں دعوی کیا گیا کہ این ڈی ایم اے کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل گزشتہ دو ہفتوں سے حراست میں تھے کیونکہ ان پر تین سو ملین ڈالر غبن کا الزام ہے۔ ٹویٹ میں یہ بھی لکھا گیا یا کہ جنرل افضل کرونا کا اگلا نشانہ ہو سکتے ہیں تا کہ کرپشن کا معاملہ بھی ان کے ساتھ ہی ختم ہو جائے۔ اس ٹویٹ میں کرونا کا نشانہ بننے سے مراد یقیناً حالیہ دنوں میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ، احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک اور تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کی جانب تھا۔ ان تینوں شخصیات کے حوالے سے یہ سازشی نظریہ زبان زد عام ہے کہ چونکہ یہ کئی رازوں کے امین تھے اس لئے ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت انہیں راستے سے ہٹا کر موت کا الزام کرونا کے سر ڈال دیا گیا۔
تاہم جنرل محمد افضل کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کرپشن کے الزامات اور گرفتاری کی خبریں گمراہ کن اور جھوٹی ہیں اور سب جانتے ہیں کہ 19 دسمبر کے روز انہوں نے اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان اور وزیر منصوبہ بندی اسد عمر سے ملاقاتیں کیں۔ یاد رہے کہ پاکستان میں کرونا کے پھیلائو کے بعد این ڈی ای ایم اے کو جب مرکزی کردار ملا تو جنرل افضل بھی لائم لائٹ میں آگئے۔ تاہم بعض اوقات ان کی کہی ہوئی باتوں پر تنازعات بھی کھڑے ہوئے۔ جولائی 2020 میں انہیں ایک انٹرویو میں 18ویں ترمیم کے خلاف بولنے اور غیر تربیت یافتہ سویلینز کے الفاظ استعمال کرنے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جنرل افضل نے کہا تھا کہ کرونا کے حوالے سے پاکستانی فوج نے بہت زیادہ کام کیا ہے لیکن 18ویں ترمیم کی وجہ سے ہمیں ڈیٹا، کو آرڈینیشن اور بات چیت کے حوالے سے بہت مسائل پیش آئے جو کہ غیر تربیت یافتہ سویلینز کی وجہ سے تھے۔ ان کے اس بیان کو سیاسی رہنماوں نے سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے غلط اور نامناسب قرار دیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button