سوات کو دوبارہ طالبان کے قبضے میں جانے سے روکا جائے


کئی برس پہلے ایک طالبان دہشتگرد کی گولی کا نشانہ بن کر ملک چھوڑ دینے والی نوبیل انعام یافتہ پاکستانی ملالہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ وادی سوات کے لوگ اب بھی اسی دہشت گردی کا شکار ہیں جس نے انہیں پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا تھا لہذا سوات کو دوبارہ طالبان کے قبضے میں جانے سے روکا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اسکا ہر ایک بچہ اور بچی محفوظ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے سوات کے لوگ ایک بار پھر دہشتگردی کا شکار ہو جائیں اور ایک بار پھر وہاں پر دھماکے اور قتلِ عام شروع ہو جائے۔ میری تو یہی امید ہے کہ ہمارے لیڈر، اسٹیبلشمنٹ جو بھی ہیں، وہ اپنا کردار ادا کریں اور سوات میں امن قائم رکھیں۔‘

بی بی سی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کے دوران انھوں نے اپنے پاکستان آنے کے مقصد، سیلاب زدگان کی مدد کے لیے عالمی سطح پر آواز بلند کرنے اور سوات میں ہونے والی حالیہ کشیدگی پر بات کی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’جیسے ہی میں نے سُنا کہ میرے آبائی علاقے سوات میں سکول کی وین پر حملہ ہونے سے بچے زخمی ہوئے ہیں، تو مجھے بہت دُکھ ہوا۔ ایک ڈراؤنی سی صورتحال ہے۔‘

ملالہ نے کہا کہ ’سوات کے لوگ اب بھی ماضی میں ہونے والے واقعات سے سنبھلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت کی اور لیڈرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ ہر ایک بچی، ہر ایک بچہ، محفوظ ہو۔‘ یاد رہے کہ سوات میں سکول وین پر ہونے والے حملے میں وین کا ڈرائیور ہلاک ہو گیا تھا جبکہ چند بچے زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے خلاف سوات میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا ہے۔ ملالہ کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’سوات کے لوگوں نے ہمیشہ انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ میں نے اور میرے والد نے سماجی سرگرمیوں کا آغاز وادی سوات سے ہی کیا تھا جب پاکستانی طالبان نے وہاں بچیوں کی پڑھائی پر ہابندی لگائی تھی۔ میں اس وقت صرف گیارہ سال کی تھی اور اس پابندی کے نتیجے میں خود بھی سکول نہیں جا سکتی تھی۔ مجھے آج بھی وہ وحشت زدہ مناظر یاد ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میں ان تمام لوگوں کے ساتھ ہوں جو اس وقت سڑکوں پر کھڑے ہو کر سوات میں دوبارہ امن قائم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔‘

ملالہ نے بدھ کے روز سندھ کے سیلاب سے متاثرہ شہر دادو کا دورہ کیا جہاں انھوں نے عورتوں اور بچوں کے ساتھ وقت گزارا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’آج جب میں دادو گئی تو میں نے پورے پورے گاؤں اور علاقے دیکھے جو پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ یہ کتنے برا سیلاب آیا ہے اور لوگ اس سے کتنا متاثر ہوئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ لاکھوں لوگ اب بھی بے گھر ہیں جن کے لیے فوری کام کرنے کی ضرورت ہے۔

یاد رہے کہ ملالہ یوسفزئی کا ادارہ ’ملالہ فنڈ‘ اب تک سیلاب سے متاثرہ بچوں کی مدد کے لیے سات لاکھ ڈالر اکٹھے کر چکا ہے۔ ملالہ نے بتایا کہ انھوں نے سیلاب سے متاثرہ بچیوں کے لیے بلوچستان کے صوبے میں ایک منصوبہ شروع کیا ہے جس کے تحت بچیوں کو پڑھائی کے متبادل طریقے سمجھائے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا ’ہم سماجی کارکنان کی بھی مدد کر رہے ہیں جو بچیوں کی تعلیم کے لیے کام کر رہے ہیں۔ تاکہ وہ سیلاب کی صورتحال میں ان بچوں کی بہتر مدد کر سکیں۔‘ انھوں نے مختلف ممالک کی جانب سے پاکستان کی سیلاب میں مدد کرنے کو سراہا اور کہا کہ حالیہ سیلاب کی شدت اتنی ہے کہ ہر ادارے اور ملک کو پاکستان کی مدد کرنے کے لیے آگے آنا ہی پڑے گا۔ ملالہ کا کہنا تھا کہ ’لیکن ہمیں اب بیانات سے آگے بڑھنا ہو گا۔ ہمیں کوشش کرنی ہو گی کہ مختلف ممالک کی جانب سے پاکستان کو مالی معاونت ملے۔ چند ممالک نے پاکستان کی مالی مدد کی ہے لیکن یہ ضرورت سے کافی کم ہے اور مختلف ممالک کو پاکستان کے لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اس وقت لوگوں کو بنیادی سہولیات جیسے کہ صحت، تعلیم اور سِرے سے اپنی زندگی شروع کرنے کے لیے مدد چاہیے۔‘

جب پوچھا گیا کہ کیا دنیا پاکستان میں آئے سیلاب کو بھول چکی ہے، اور آگے بڑھ چکی ہے تو ملالہ نے کہا کہ ’لوگ اب بھی سیلاب پر بات کر رہے ہیں۔ مجھے تھوڑا سا ڈر ہے کہ اگلے کچھ عرصے میں لوگ بھول نہ جائیں یا صرف بات کرنے کی حد تک اسے نہ چھوڑ دیں۔ اب ضروری ہے کہ ایکشن بھی لیں اور یقینی بنائیں کہ آپ لوگوں کی مالی مدد کریں۔‘

ملالہ یوسفزئی سے پوچھا گیا کہ جب بھی انکا نام لیا جاتا ہے تو دو بالکل متضاد ردعمل دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک طرف تو انھیں دنیا بھر میں بہت زیادہ پیار اور عزت دی جاتی ہے لیکن دوسری جانب اپنے ملک میں چند حلقوں کی جانب سے انھیں ہدف تنقید بھی بنایا جاتا ہے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ اس طرح کے رویوں سے وہ کیسے نمٹتی ہیں؟ اس پر ملالہ کا کہنا تھا کہ ’میرے لیے جو ردعمل اہمیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ لوگ ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کام کریں۔ مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ کون میرے حق میں بول رہا ہے اور کون میرے خلاف بول رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’مجھے اس بات کی پرواہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے کے لیے کیا کر رہے ہیں اور اس وقت سیلاب سے جو پاکستان متاثر ہوا ہے اس کے لیے ہم کیا کر رہے ہیں۔‘ انٹرویو کے اختتام پر جب اُن سے پوچھا کہ کیا آپ دوبارہ پاکستان آئیں گی؟ تو ملالہ نے کہا کہ ’میں پاکستان آنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ میں یہاں بار بار آیا کروں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میرا گھر ہے اور مجھے اپنے ملک سے بہت پیار ہے۔ اب ہمیں حب الوطنی کو ثابت کرنے کے لیے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں اور آپ محب وطن ہیں تو آپ اپنے لوگوں کی خدمت کریں۔‘

Related Articles

Back to top button