الطاف حسین کے خلاف کیس کی سماعت مکمل

کنگ اپون تھیم کراؤن کورٹ میں ’دہشت گردی کی حوصلہ افزائی‘ کرنے سے متعلق اشتعال انگیز تقاریر کیس میں ایم کیو ایم بانی الطاف حسین کے خلاف میں دلائل مکمل کر لیے گئے، عدالت فیصلہ کریگی، الطاف حسین کو دہشت گردی کے خلاف سزا سنائی جائے گی یا انہیں الزامات سے بری کر دیا جائے گا۔

بانی ایم کیوایم پر انسداد دہشت گردی ایکٹ 2006 کے سیکشن ون (2) کے تحت دو علیحدہ عدالتوں میں درخواست دائر کی گئی، دونوں درخواستوں میں ’دہشت گردی کی حوصلہ افزائی‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا جسے الطاف حسین کی 22 اگست 2016 کی سے منسلک کیا گیا ہے اور کیس اس ہی پر کیس انحصار کرتا ہے۔

کیس کا فیصلہ آئندہ ہفتے سنائے جانے کا امکان ہے، جسٹس مے کی جانب سے جیوری کو دی گئی ہدایات میں کہا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ دونوں فیصلے ایک جیسے ہوں لیکن ایسا ہونا ضروری نہیں ہے تاہم ابتدائی طور پر توقع کی جارہی ہے کہ اگر الطاف حسین عدالتی فیصلے کے خلاف کوئی مؤقف اختیار کرتے ہیں تو ممکنہ طور پر ان کے وکلا عدالت کو آگاہ کریں گے۔

جسٹس مے کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کا فیصلہ ان کا حق ہے اور ورنہ جیوری فیصلے میں شامل کر سکتی ہے کہ بانی ایم کیو ایم کی جانب سے اپنے اوپر لگائے گئے اشتعال انگیز تقاریر کے الزام پر کوئی شواہد جمع نہیں کروائے گئے۔

عوام خود اپنے خلاف لوڈ شیڈنگ کرنے پر مجبور ہوگئے

جسٹس مے نے جیوری ہدایت دی کہ آپ یہ نتیجہ بھی آخذ کر سکتے ہیں کہ الطاف حسین کے پاس استغاثہ کے کیس کے خلاف کوئی جواب نہیں ہے، لیکن آپ ان کی خاموشی پر فیصلہ نہیں دے سکتے ہیں، کیونکہ استغاثہ کو جرم ثابت کرنا لازمی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پراسیکیوشن اس بات کا فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ الطاف حسین کی جانب سے کوئی جواب دیاگیا، معافی مانگی گئی نہ ہی وضاحت دی گئی، ان کے جرم میں ملوث نہ ہونا یا سوالات کا جواب نہ دینا اس بات کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ الطاف حسین کےپاس جواب نہیں ہے، انہیں اپنی صفائی میں کم از کم ایک جواب دینا ہوگا۔

تاہم، دفاعی وکیل کا کہنا تھا کہ الطاف حسین کے پاس بتانے کے لیے اور کچھ نہیں ہے، شاید یہ آپ کے لیے مدد گار ثابت ہوگا کہ 6 سال پیچھے جا کر ویڈیوز میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے کچھ چھپانے کی کوشش نہیں کی۔دفاعی وکیل کا کہنا ہے بانی ایم کیو ایم نے اپنی تقاریر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹر پر معافی مانگی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے لوگوں سے ہر وجوہات کی بنا پر معافی مانگی ہے لیکن ایسے غلطی کا اعتراف نہیں سمجھا جائے۔

Related Articles

Back to top button