انسان کے علاوہ میرا پسندیدہ جانور!

تحریر: عطا الحق قاسمی ، بشکریہ : روزنامہ جنگ

مجھے جانوروں سے انتہائی دلچسپی ہے چنانچہ اب تک جانوروں اور ان جیسے انسانوں پر بیسیوں کالم لکھ چکا ہوں۔ میری دلچسپی کے جانوروں میں گھوڑے، گدھے، لگڑ بگڑ ، گائیں، بھینسیں اور کتے وغیرہ شامل ہیں ان میں سے بھی خصوصاً کتا مجھے بہت ہانٹ کرتا ہے یہ عجیب و غریب مخلوق ہے کبھی ادنیٰ درجے کے ڈرائنگ روم میں انتہائی مہنگے قالین پر بیٹھا نظر آتا ہے، کہیں قصائی کے پھٹے کے پیچھے سے برآمد ہوتا ہے یہ اونچ نیچ صرف کتوں ہی نہیں خود ہمارے معاشرے میں بھی موجود ہے بہرحال کتے میری دلچسپی کا ہمیشہ سے مرکز رہے ہیں، اللہ جانے وہ کون لوگ ہیں جنہیں کتے اچھے نہیں لگتے رات گئے گھر واپس لوٹتے ہوئے جب گلیاں اور کوچے ویران ہوتے ہیں اور لوگ اپنے گھروں میں سو رہے ہوتے ہیں ،ہر طرف سناٹے کا راج ہوتا ہے ، اس ماحول میں موٹر سائیکل پرسوار ہونے کے باوجود آنکھوں میں نیند تیرنے لگتی ہے تو اچانک کسی دکان کے پھٹے کے نیچے سے کوئی مریل سا کتا برآمدہوتا ہے اور عف عف کرتا ہوا موٹر سائیکل کے ساتھ ساتھ بھاگنے لگتا ہے وہ دراصل اظہارِ عقیدت کے لئے قدم بوسی کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہے چنانچہ وہ بار بار اپنا منہ میرے ٹخنے کی طرف لاتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے خود میرے اپنے دل میں کتوں کے لئے محبت کے جذبات موجود ہیں لہٰذا ان لمحوں میں موٹر سائیکل کی رفتار ذرا تیز کر دیتا ہوں تاکہ میری قدم بوسی کے شوق میں کہیں اس کا منہ موٹر سائیکل کے گرم گرم سائلنسرسے نہ چھو جائے لیکن کئی کتے وفورِ عقیدت میں گرم سائلنسرکی بھی پروا نہیں کرتے اور ٹخنوں کے بالکل قریب پہنچ جاتے ہیں، ان لمحوں میں خوفِ خدا کے باعث میں اپنی ٹانگ اوپر اٹھا لیتا ہوں کہ اس معاملے میں میں کٹروہابی واقع ہوا ہے اورمجھے قدم بوسی کے اس اقدام سے شرک کی بو آتی ہے۔

میں تو یوں بھی بہت گناہ گار آدمی ہوں کتوں کے اس اظہار عقیدت سے مجھے خاصی ندامت محسوس ہوتی ہے بلکہ ان لمحوں میں تو عرقِ ندامت باقاعدہ میری پیشانی پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اللہ جانے میری پیرزادگی کی بابت کس بدبخت نے انہیں بتایا کیونکہ میں نے تو اسی بنا پر ایک عرصے سے اپنے نام کے ساتھ پیرزادہ لکھنا چھوڑ دیا ہے بہرحال کتے مجھے اسلئے اچھے لگتے ہیں کہ یہ مجھ ایسے سوئے ہوئوں کو بیدار کرتے ہیں سونے میں کوئی قباحت نہیں مگر موٹر سائیکل چلانے کے دوران کچھ قباحتیں ہیں جن میں ایک قباحت یہ بھی ہے کہ انسان کو دوبارہ بیدار ہونے کا موقع کم ہی ملتا ہے ۔

ویسے کتوں سے محبت کا دعویدار ایک میں نہیں اہل مغرب بھی ہیں۔ مغرب میں تو بسااوقات انسانوں پر کتوں کو ترجیح دی جاتی ہے تاہم مشرق میں ایسا نہیں کیونکہ یہاں تو مجھ ایسے انسانوں کو بھی کتوں پر فوقیت حاصل ہے۔میں نے مغرب میں دیکھا ہے کہ کتے وی آئی پیز کی طرح ٹریٹ ہوتے ہیں ہمارے ہاں ایسا نہیں البتہ وی آئی پیز کو ریٹائرمنٹ کے بعد جس طرح ٹریٹ کیا جاتا ہے اللہ جانے اسے کیا نام دیا جاتا ہے ؟اہل مغرب کو تو کتوں کے ساتھ اس درجہ رغبت ہے کہ شوہر اور کتے میں سے اگرکسی ایک کو ترجیح دینے کا موقع آ جائے تو بیوی کتے کو ترجیح دیتی ہے جب کہ ہمارے ہاں اس قسم کی صورت حال میں بہرحال شوہر کو غنیمت سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ میں ایک بی بی نے جو میرے ہمسائے میں رہتی تھی، اپنے شوہر سے طلاق لے لی کیونکہ وہ آتے جاتے کتے کو جھڑکتا تھا۔ یہ بی بی طلاق کے بعد بہت خوش تھی، کہتی تھی اس روز سے سکھ کی نیند سو رہی ہوں کیونکہ ’’ٹونی‘‘ سوتے میں خراٹے تو نہیں لیتا۔

خیر ان سطور میں مغرب اور مشرق میں موازنہ مقصود نہیں کیونکہ وہ جو کہا جاتا ہے کہ مغرب مغرب ہے اور مشرق مشرق یہ نہ کبھی ملے ہیں اور نہ کبھی ملیں گے تو اس کی بنیادی وجہ کتوں کے حوالے سے ان خطوں کے باسیوں کی متضاد پالیسی ہے چنانچہ مجھے اگر کتے پسند ہیں تو یہ میرا انفرادی مسئلہ ہے اس کی ایک وجہ تو میں شروع میں بتا چکا ہوں ،دوسری وجہ یہ ہے کہ کتے سوشل بہت ہوتے ہیں ان میں وسیع القلبی بھی بہت ہوتی ہے ان میں نہ تو کوئی محبوب ہوتا ہے اور نہ کوئی رقیب بس سارے کتے ہی ہوتے ہیں۔ کتوں کی جو ایک چیز مجھے مزید پسند ہے وہ ان میں خوشامداور چاپلوسی کا جوہر ہے جس کتے کو ہڈی ڈال دیں وہ دم ہلانے لگتا ہے پائوں چاٹنے لگتا ہے اور جتنا چاہے ذلیل کریں وہ ذلیل نہیں ہوتا اسے اپنی عزت افزائی ہی سمجھتا ہے۔

کتے مجھے سلئے بھی پسند ہیں کہ ان میں علاقائی تعصب بہت ہوتا ہے وہ کسی اجنبی کو برداشت نہیں کرتے اسے اپنے علاقے میں دیکھ کر بھونکنا شروع کر دیتے ہیں اور مجھے ان کا یہ علاقائی تعصب ہی پسند ہے کیوں کہ ہم میں سے جو انسان ہیں وہ پٹھان، سندھی، پنجابی، بلوچی ہوتے ہوئے بھی سب سے پہلے پاکستانی ہیں کتے ان چکروں میں نہیں پڑتے وہ کسی اجنبی کو دیکھ کر سیدھا اس کی ٹانگوں کو پڑتے ہیں کتوں میں کچھ ایسی چیزیں اور بھی ہیں مگر انہیں بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ کالم ان کی نظروں سے نہیں گزرے گا ۔چنانچہ ان کی تعریف کرنا تو سوئے ہوئے بچے کا منہ چومنا ہے جس سے نہ بچہ خوش ہو گا نہ بچے کی ماں، یوں بھی کتوں کے اس قصیدے سے میں لوگوں کے وہ جذبات ختم نہیں کر سکتا جو کتوں کیلئے اپنے دل میں رکھتاہوں۔

ایک دوست جن کے گھر میں رحمت کا فرشتہ ایک عرصے سے داخل نہیں ہوا، ان دنوں اپنے کتے کو گھر سے نکالنے کی سوچ رہے ہیں کیوں کہ انہوں نے سنا ہے کہ جس گھر میں کتا ہو وہاں رحمت کا فرشتہ داخل نہیں ہوتا ۔میں نے اپنے دوست کے فیصلے پر صاد کیا اور کہا تم نے ٹھیک فیصلہ کیا ہے کتے کو واقعی گھر سے نکال دینا چاہئے کہ گھر میں ایک نجس چیز کا وجود مناسب نہیں لیکن اس کے باوجوداگر تمہارے گھر میں برکتوں کا نزول نہ ہو تو تجرباتی طور پر تین چار ماہ کے لئے تم خود گھر سے نکل جائو شاید اللہ تعالیٰ تمہارے گھر پر اپنا کرم کردے۔

Related Articles

Back to top button