کراچی کے ’’پراٹھا رول‘‘ کا جنم کیسے ہوا؟

کراچی میں عام طور پر پراٹھے اور کباب کو الگ الگ پلیٹ میں پیش کیا جاتا تھا لیکن ایک روز گاہک کی جلدی کے باعث دکاندان نے پراٹھے میں کباب رول کیا اور گاہک کو تھما دیا جوکہ راستے میں اسے کھانا چاہتا تھا، اس سے متاثر دیگر صارفین نے بھی پراٹھا اور کباب کو الگ الگ کھانے کی بجائے ایک ساتھ رول کر کے کھانے کو مزیدار قرار دیا۔
پراٹھا رول کی ترکیب سادہ ہے، کباب کو پراٹھے میں لپیٹ دیں لیکن معصومہ یوسفزئی، جو کراچی میں ہی پلی بڑھی ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ دو پکوانوں کی شادی جیسا ہے۔عام طور پر کباب اور پراٹھا الگ الگ کھایا جاتا ہے لیکن ان دونوں کو اکھٹا کرنے سے ان کا ذائقہ اور مزہ دوبالا ہو جاتا ہے، معصومہ کہتی ہیں کہ اس ترکیب کی مدد سے اسے ہاتھ میں پکڑ کر ایک ساتھ کھایا جا سکتا ہے اور چٹنی کے ساتھ تو ہر نوالہ ذائقے کا سر محسوس ہوتا ہے۔ یہ اس تجربے کو بہت بہتر بنا دیتا ہے اور زیادہ ذائقے دار بھی۔
پراٹھا رول کی کہانی بھی اتنی ہی مزیدار ہے۔ 1970 کی دہائی میں حافظ حبیب الرحمان نے کراچی کی مشہور طارق روڈ پر ’سلور سپون سنیکس‘ نامی دکان میں کباب رول کی ایک نئی ترکیب تیار کی جو کافی لذیذ ثابت ہوا۔
اس زمانے میں سلور سپون نئی دکان تھی جہاں ایک پلیٹ میں کباب اور پراٹھا الگ الگ پیش کیا جاتا تھا۔ یہاں چاٹ اور آئس کریم بھی ملتی تھی، ایک دن ایک گاہک کو جلدی تھی اور وہ بیٹھ کر کھانے کے بجائے اپنا کھانا ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ حبیب نے جلدی میں کباب کو پراٹھے میں لپیٹ کر اس کے گرد کاغذ چڑھایا اور گاہک کے ہاتھ میں تھما دیا۔
قریب ہی موجود ایک اور گاہک نے جب یہ دیکھا تو اس نے بھی فرمائش کی۔ حبیب کو سمجھ آئی کہ یہ طریقہ تو اچھا ہے۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ان کو زیادہ برتن نہیں دھونے پڑتے تھے، گاہکوں کو بیٹھنے کے لیے جگہ بھی درکار نہیں ہوتی اور ان کو کھانا بھی جلد مل جاتا۔
حبیب کہتے ہیں ’جب ہم نے پہلی بار کباب رول متعارف کروایا تو ویٹرز کو سمجھانا پڑتا کہ کاغذ اتار کر اسے روٹی کی طرح نہیں کھانا، شروع شروع میں حبیب نے مفت پراٹھا رول بانٹا۔ وہ زیادہ بکنے والے کھانوں جیسا کہ چاٹ کے ساتھ رکھ دیتے یا پھر لبرٹی چوک پر کھڑی گاڑیوں میں کسی اخبار والے کی طرح پراٹھا رول بانٹتے کہ یہ مشہور ہو جائے اور ایسا ہی ہوا۔
کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈاکٹر سحر ندیم حامد کے مطابق پراٹھا رول نے روایتی خوارک کو جدت کا روپ دیا۔تیزرفتاری سے پھیلتے ہوئے اس بڑے شہر میں ایسی خوراک کی ضرورت بھی تھی۔
1970 کی دہائی میں اپنی قیمت اور آسانی کی وجہ سے پراٹھا رول کی مقبولیت رفتہ رفتہ آسمان کو چھونے لگی۔ انھیں چلتے پھرتے یا ڈرائیونگ کرتے ہوئے بھی کھایا جا سکتا تھا اور وہ اتنے صاف ہوتے تھے کہ تیل اوپر لپٹے کاغذ کے ساتھ چپکا رہتا جبکہ ہاتھ صاف رہتے۔
خواتین کے لیے بھی معاشرتی اعتبار سے یہ ایک موزوں پکوان تھا۔ وہ آرام سے پراٹھا رول لے کر کھا سکتی تھیں اور ان کو کسی جگہ بیٹھنا نہیں پڑتا تھا۔ سلور سپون میں بیٹھنے کی محدود جگہ کی وجہ سے زیادہ تر مرد گاہک ہی موجود ہوتے تھے۔
جلد ہی سلور سپون نے ایک پوری انڈسٹری کو جنم دیا۔ ریڈ ایپل، ہاٹ اینڈ سپائسی، مرچیلی جیسے ناموں کے ساتھ پراٹھا رول بیچنے والی اور دکانیں بھی میدان میں آ گئیں لیکن 1970 میں پراٹھا رول کا مزہ چکھنے والے افراد کو حبیب الرحمان کے توا پراٹھا کا وہ ابتدائی مزہ اور ذائقہ اب بھی یاد ہے۔
حبیب بتاتے ہیں کہ جب بیرون ملک مقیم پاکستانی کراچی آتے تو وہ ایئر پورٹ سے سیدھا ان کی دکان پر پہنچتے چاہے وہ 20 یا 30 سال بعد بھی واپس آ رہے ہوتے تو ان کے لیے پراٹھا رول گھر واپسی کا اظہار تھا۔

Related Articles

Back to top button