نور مقدم کیس:ملزم کی درخواستیں وقت ضائع کرنے کے مترادف قرار

نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں استغاثہ نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی جانب سے دائر تین درخواستوں کو عدالت کا ’وقت ضائع‘ کرنے کے مترادف قرار دیدیا۔
پیر کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد عطا ربانی کی عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران وکلا نے ملزم ظاہر جعفر کی جانب سے دائر تین درخواستوں پر دلائل دیئے اور انہیں خارج کرنے کی درخواست کی۔
اس موقع پع انسپکٹر جنرل آف پولیس اسلام آباد کی مقدمے سے متعلق پریس کانفرنس پر درخواست پر دلائل دیتے ہوئے پبلک پراسیکیوٹر حسن عباس نے ایسے کسی واقعے کی تردید کی ہے۔
حسن عباس کے مطابق آئی جی پولیس نے کوئی پریس کانفرنس نہیں کی تھی بلکہ اسلام آباد پولیس نے ٹوئٹر پر وضاحت جاری کی تھی، آئی جی اسلام آباد کی طرف سے عدالتی کارروائی کو متاثر کرنے کی کوشش سے متعلق دیے گئے تاثر میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
پبلک پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ہم عدالت کی کسی کارروائی میں کبھی بھی کسی قسم کی مداخلت کا سوچ بھی نہیں سکتے، درخواست کے مندرجات عدالتی کارروائی اور نہ ہی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
پولیس ریکارڈ میں درج ایک مخصوص موبائل نمبر کی ملکیت سے متعلق درخواست کے خلاف دلائل دیتے ہوئے مدعی کے وکیل نے کہا کہ نمبر مقتولہ نور مقدم کی والدہ کے زیر استعمال تھا۔
اس مرحلے پر ایسی درخواست دینا صرف مقدمہ لٹکانے کا بہانہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے، ملزم ظاہر جعفر کے وکیل نے اس موقع پر کہا کہ مدعی مقدمہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ نمبر ان کی اہلیہ کوثر کے نام پر ہے جبکہ درحقیقت یہ کسی دوسرے شخص کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔
انہوں نے عدالت سے نمبر کا ریکارڈ منگوانے کی استدعا کی، تیسری درخواست جائے وقوعہ کے نقشے سے متعلق تھی جس میں ملزمان کے وکلا کے مطابق کچھ غلط معلومات شامل کی گئی ہے، عدالت میں ملزمان کے وکلا کا کہنا تھا کہ موقع کا جو نقشہ بنایا گیا ہے اس میں گھر کے پیچھے رہائشی علاقہ دکھایا گیا ہے جبکہ حقیقتاً وہاں جنگل ہے۔
اس درخواست پر دلائل دیتے ہوئے پبلک پراسیکیوٹر نے کہا کہ جائے وقوعہ کے نقشے میں پورے علاقے اور جنگل کا ذکر موجود ہے، 24 جولائی کو بنائے گئے موبائل ریکوری کے سائٹ پلان میں گرین ایریا کا ذکر موجود ہے، جبکہ 27 جولائی کی رپورٹ میں بھی گرین ایریا ہی موجود ہے۔
استغاثہ نے تینوں درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ان پر غور کرنے سے عدالت کا وقت ضائع ہو گا جبکہ عدالت نے ان درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔