عمران خان کو سزا سنانے والے جج کو عہدے سے کیوں ہٹایا گیا؟

سابق وزیراعظم عمران خان کو توشہ خانہ مقدمے میں سزا سنانے والے اسلام آباد کی مقامی عدالت کے جج ہمایوں دلاور کو مبینہ سکیورٹی خدشات کے باعث اسلام آباد ہائی کورٹ میں او ایس ڈی تعینات کرتے ہوئے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے 25 اگست کو جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن میں وفاقی دارالحکومت میں تعینات ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور کو ان کی پوسٹ سے ہائی کورٹ ٹرانسفر کر دیا گیا ہے، جہاں وہ آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی یعنی او ایس ڈی کے نئے تخلیق شدہ عہدے پر کام کریں گے۔  نوٹیفیکیشن کے مطابق جج ہمایوں دلاور کو فوری طور مقامی عدالت سے ہٹا کر نئے عہدے پر تعینات کیا جاتا ہے اور اس کا اطلاق 25 اگست سے ہی ہو گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ حکام کے مطابق ’ہمایوں دلاور کو ان کے اپنے سکیورٹی خدشات کے باعث ہائی کورٹ میں تعینات کیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ نے جوڈیشل افسر کی زندگی کو درپیش خطرات کے باعث جج کی سیکورٹی اور سیفٹی کو یقینی بنانے کے لیے یہ اقدام اٹھایا ہے۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ سے نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر تاثر ابھرا کہ جج ہمایوں دلاور کو کسی خاص دباؤ یا ڈیل کے تحت او ایس ڈی بنایا گیا ہے۔

تاہم بعد ازاں جج ہمایوں دلاور کا رجسٹرار ہائیکورٹ کو لکھ آگیا ایک خط سامنے آ گیا۔ جج ہمایوں دلاور نے 17 اگست کو رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے اپنی ٹرانسفر کی درخواست کی تھی۔انہوں نے خط میں لکھا کہ ایک سیاسی جماعت کے چیئرمین یعنی عمران خان کے خلاف الیکشن ایکٹ کے تحت کریمنل کمپلینٹ کا فیصلہ سنایا اور ٹرائل کے دوران اور فیصلہ سنانے کے بعد سوشل میڈیا پر میرے خلاف ایک کمپین چلائی گئی، جس کے باعث دنیا بھر سے مختلف افراد کی جانب سے انہیں دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

جج ہمایوں دلاور نے مزید لکھا کہ ان کی فیملی کو بھی سرحد پار سے دھمکیاں موصول ہوئیں۔ ’میرے بچوں کو سکول جانے میں دشواری اور ناخوشگوار صورت حال کا سامنا ہے کیونکہ میرے اور میرے خاندان کے افراد کے خلاف ایک منظم مہم چلائی گئی۔’یو کے میں بھی ٹریننگ کے دوران دیگر جوڈیشل افسران کے ہمراہ ناخوشگوار حالات سے گزرنا پڑا۔‘انہوں نے خط میں لکھا کہ ’ان وجوہات کی بنا پر درخواست ہے کہ میرا تبادلہ کسی اور جگہ کر دیا جائے۔‘

انہوں نے اپنے خط میں رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ سے انہیں جوڈیشل کمپلیکس میں سپیشل کورٹس یا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعینات کیے جانے کی درخواست کی تھی۔ جس پر ان کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلہ کر دیا گیا۔

خیال رہے کہ رواں ماہ پانچ اگست کو سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کا فیصلہ آیا تھا، جس میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور نے چیئرمین پی ٹی آئی کو تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی ۔ جس کے بعد عمران خان کو زمان پارک لاہور سے گرفتار کرکے اٹک جیل منتقل کردیا گیا تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے اس کیس کو ناقابل سماعت قراردینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیے تھے کہ ملزم کے خلاف جرم ثابت ہوتا ہے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن میں جھوٹا بیان حلفی جمع کروایا۔فیصلے کے اگلے روز جج ہمایوں دلاور ایک کورس کے سلسلے میں لندن روانہ ہو گئے تھے، جہاں پاکستان تحریک انصاف کے فالورز نے عمران خان کے خلاف فیصلہ دینے کی وجہ سے ان کا گھیراؤ کرنے کی بھی کوشش کی، جس کی وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔

واضح رہے کہ توشہ خانہ ریفرنس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف اسلام آباد کی مقامی عدالت میں کرمنل کمپلینٹ دائر کی تھی جہاں 30 سے زائد سماعتوں کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا تھا۔اس دوران عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا لیکن انہیں کوئی خاص ریلیف نہیں مل سکا۔ 4 اگست 2022 کو اسپیکر قومی اسمبلی نے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

محسن شاہ نواز رانجھا سمیت پی ڈی ایم کے 5 ارکان قومی اسمبلی نے اسپیکر سے درخواست کی تھی جس میں آرٹیکلز 62 اور 63 کے تحت نااہلی کا مطالبہ کیا گیا۔7 ستمبر 2022 کو چیئرمین تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کو تحریری جواب دیا جس میں بتایا گیا کہ سنہ 2018 سے سنہ 2021 کے دوران 58 تحائف موصول ہوئے جنہیں باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم ادا کرکے خریدا گیا تھا۔ 21 اکتوبر 2202 کو الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کو نااہل قرار دیا اور کرمنل کمپلینٹ فائل کرنے کی ہدایت بھی کی۔ 15 دسمبر 2022 کو توشہ خانہ فوجداری کیس ایڈیشل سیشن جج ظفر اقبال نے قابل سماعت قراردیا۔ 9 جنوری 2023 کو ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے کیس دوبارہ قابل سماعت قرار دیا جہاں 27 سماعتوں میں چیئرمین پی ٹی آئی ایک مرتبہ بھی پیش نہیں ہوئے۔ 10 مئی 2023 کو نیب حراست میں عمران خان کو پولیس لائنز سے عدالت لایا گیا اور فرد جرم عائد ہوئی۔ 12 جولائی 2023 کو توشہ خانہ فوجداری کیس میں ٹرائل کا مرحلہ شروع ہوا اور عمران خان نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا جبکہ الیکشن کمیشن کے 2 گواہوں کے بیانات بھی قلمبند ہوئے اور سابق وزیراعظم اور دیگر گواہان کی فہرست مسترد ہوئی اور 5 اگست کو عمران خان کو گرفتار کرلیا گیا۔

Related Articles

Back to top button