عسکری کمان میں ممکنہ تبدیلی بارے درخواست دائر

عسکری کمان میں ممکنہ تبدیلی کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی گئی، اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ کچھ دیر میں اہم پٹیشن پر سماعت کریں گے۔
ایڈووکیٹ عدنان اقبال نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت درخواست دائر کی ہے۔دائر کردہ درخواست میں عدالت سے کہا گیا ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان کو جنرل قمر جاوید باجوہ کو چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے ڈی نوٹیفائی کرنے سے روکے۔درخواست میں ایڈووکیٹ عدنان اقبال نے فیڈریشن آف پاکستان، حکومت پاکستان، وزیراعظم عمران خان، صدر ڈاکٹر عارف علوی، وزارت قانون اور وزارت دفاع کے سیکریٹری کو فریق بنایا ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ کیا وزیراعظم کے پاس آرمی چیف کو ٹھوس وجوہات کے بغیر ہٹانے کا اختیار ہے۔
سپریم کورٹ نے 7 اپریل کے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ وزیراعظم کا کوئی بھی فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہو گا، کیا وزیراعظم سیاسی مقاصد کیلئے آرمی چیف کو عہدے سے ہٹا سکتا ہے۔
خیال رہےکہ سوشل میڈیا پر یہ خبریں چل رہی ہیں کہ وزیراعظم کی جانب سے آرمی چیف کو برطرف کردیا گیا ہے
یہ درخواست وزیر اعظم کو ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے مدت ختم ہونے سے پہلے آرمی چیف کو برطرف کرنے کے اپنی صوابدیدی اختیار استعمال کرنے” سے روکنے کے لیے ایک پیشگی اقدام ہے۔
واضح رہے کہ یہ تمام صورتحال ایسے وقت میں سامنے آرہی ہے جبکہ اب سے کچھ دیر قبل سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر ہونے والے پارلیمان کے ایوانِ زیریں کا اجلاس ووٹنگ کے بغیر چوتھی مرتبہ ملتوی کردیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 7 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ اور صدر مملکت کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔
چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھاکہ یہ تمام ججز کا متفقہ فیصلہ ہے، ہم نے ایک دوسرے سے مشورہ کیا، ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ غیر آئینی تھی جبکہ وزیر اعظم صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس نہیں دے سکتے تھے۔عدالت عظمیٰ نے قومی اسمبلی کو بحال کرتے ہوئے اسپیکر کو ایوان زیریں کا اجلاس 9 اپریل بروز ہفتہ صبح ساڑھے 10 بجے تک بلانے اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کی ہدایت کی تھی۔چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ ووٹنگ والے دن کسی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جائے گا، تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں فوری نئے وزیر اعظم کا انتخاب ہوگا جبکہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو تو حکومت اپنے امور انجام دیتے رہے گی

Related Articles

Back to top button