پنجاب کے کے پی میں 90روز میں الیکشن ممکن کیوں نہیں؟

سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز میں انتخابات کروانے کا حکم تو دیدیا ہے تاہم پنجاب اور کے پی میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 دن میں الیکشن کا انعقاد الیکشن ایکٹ میں ترمیم یاالیکشن پروگرام میں تبدیلی کے عدالتی حکم تک ممکن نہیں کیونکہ پروگرام کی تکمیل کیلئے قانون میں کم از کم 54 دن کا وقت مختص کیا گیا ہے۔

پنجاب اور کے پی اسمبلی بالترتیب 14 اور 18 جنوری کو تحلیل ہوئی تھی۔ تحلیل کے حوالے سے پنجاب اسمبلی کے معاملے کو دیکھیں تو 45 دن جبکہ کے پی اسمبلی کے معاملے میں 42 دن پہلے ہی گزر چکے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے بعد انتظامات کیلئے 54 دن کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔الیکشن ایکٹ 2017ء میں لکھا ہے کہ تاریخ کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن کو کیا انتظامات کرنا ہوتے ہیں۔

دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے دونوں صوبوں کے گورنر سے رابطہ کیا تاکہ تاریخ کا اعلان ہو سکے اور دونوں شخصیات کو لکھے خط میں کمیشن نے کہا تھا کہ الیکشن ایکٹ کی سق (2)57 کے تحت تاریخ کے اعلان کے بعد 54 دن کا عرصہ درکار ہوگا تاکہ انتظامات کیے جا سکیں۔

ذرائع نے اس شق کے حوالے سے بتایا ہے کہ تاریخ کا اعلان ہونے کے سات دن کے اندر، کمیشن اپنی ویب سائٹ اور سرکاری گزیٹ میں نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے جس میں ووٹروں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسمبلی کے حلقوں پر اپنے نمائندوں کو الیکشن پروگرام کے مطابق منتخب کریں۔الیکشن پروگرام میں نامزدگی کی آخری تاریخ درج ہوتی ہے جو نوٹیفکیشن کے اجراء کے 6؍ دن بعد کی ہوتی ہے یا پھر اگر وہ دن سرکاری چھٹی کا ہو تو یہ اگلا دن ہوتا ہے جب کوئی سرکاری چھٹی نہ ہو۔کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ کے بعد آنے والے دن پر نامزد امیدواروں کے ناموں کا اعلان کرنے کا دن ہوتا ہے۔

نامزدگی کا اعلان ہونے کے دن کے بعد اگلے دن یعنی آٹھویں دن کاغذات نامزدگی کی اسکروٹنی کا آخری دن ہوتا ہے، یا پھر اگر وہ دن سرکاری چھٹی ہو تو یہ دن اگلا دن ہوگا جو سرکاری چھٹی کا نہ ہو۔ اسکروٹنی کی آخری تاریخ کے بعد چوتھے دن نامزدگی کی منظوری یا اس کیخلاف اپیل دائر کیے جانے کا آخری دن ہوتا ہے، اسی طرح اپیل دائر کرنے کے آخری دن کے بعد ساتواں دن اپیلوں کے فیصلے کا آخری دن ہوتا ہے۔امیدواروں کی حتمی فہرست اپیلوں پر فیصلے کی آخری تاریخ کے بعد اگلے دن جاری کی جاتی ہے۔

یہ فہرست جاری ہونے کے دن کے اگلے دن کسی بھی امیدوار کے دستبردار ہونے کا دن ہوتا ہے۔امیدواروں میں سے کسی کی جانب سے دستبردار ہونے کے اگلے دن امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ کیا جاتا ہے۔ حتمی فہرست جاری ہونے کے 28ویں دن الیکشن ہوتا ہے۔اس کے بعد ریٹرننگ افسر الیکشن کمیشن کی جانب سے تاریخ کا اعلان کرنے کے تین دن کے اندر متعلقہ حلقے یا حلقوں میں نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے اور ساتھ ہی نمایاں مقامات پر عوامی نوٹس بھی جاری کیا جاتا ہے۔ ریٹرننگ افسر اس پبلک نوٹس کے تحت متعلقہ حلقے کے امیدواروں سے کاغذات نامزدگی وصول کرتا ہے۔

الیکشن ایکٹ کے تحت انتخابی پروگرام کی تکمیل کیلئے 54دن درکار ہوتے ہیں پنجاب اسمبلی تحلیل کے 90 دن بعد انتخابات کو یقینی بنانے کے حکم کو دیکھا جائے تو پنجاب میں تو صرف 45 دن باقی ہیں جبکہ خیبر پختونخواہ میں بھی 48 دن باقی ہیں اس لئے 90دن میں انتخابات کو یقینی بنانے کیلئے الیکشن پروگرام میں تبدیلی ناگزیر ہے۔

خیال رہے کہ پنجاب، خیبرپختونخوا (کے پی) الیکشن ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں انتخابات 90 دنوں میں کرانے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے دیا ہے، بینچ کی اکثریت نے درخواست گزاروں کو ریلیف دیا ہے۔فیصلے میں5 رکنی بینچ کے دو ممبران نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کیا، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ جنرل اتنخابات کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے، آئین میں انتخابات کے لیے 60 اور 90 دن کا وقت دیا گیا ہے، اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات ہونا لازم ہیں، پنجاب اسمبلی گورنرکے دستخط نہ ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی جب کہ کے پی اسمبلی گورنر کی منظوری پر تحلیل ہوئی۔فیصلے میں کہا گیا ہےکہ گورنرکو آئین کے تحت تین صورتوں میں اختیارات دیےگئے، گورنر آرٹیکل 112 کے تحت، دوسرا وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کرتے ہیں، آئین کا آرٹیکل 222 کہتا ہےکہ انتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے، الیکشن ایکٹ گورنر اور صدر کو انتخابات کی تاریخ کی اعلان کا اختیار دیتا ہے، اگر اسمبلی گورنر نے تحلیل کی تو تاریخ کا اعلان بھی گورنرکرےگا، اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہیں کرتا تو صدر مملکت سیکشن 57 کے تحت اسمبلی تحلیل کریں گے۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار حاصل ہے، انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری گورنر کی ہے،گورنر کے پی نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرکے آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا، الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے، الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدر پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں، گورنر کے پی صوبائی اسمبلی میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں، ہر صوبے میں انتخابات آئینی مدت کے اندر ہونے چاہئیں۔عدالت عظمیٰ کا کہنا ہےکہ الیکشن کمیشن صدر اورگورنر سے مشاورت کا پابند ہے، 9 اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت کے بعد پنجاب میں تاریخ بدلی جاسکتی ہے۔سپریم کورٹ نے حکم دیا ہےکہ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں، وفاق الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے تمام سہولیات فراہم کرے، عدالت انتخابات سے متعلق یہ درخواستیں قابل سماعت قرار دے کر نمٹاتی ہے۔

واضح رہے کہ عدالت نے از خود نوٹس کا فیصلہ 28فروری کو محفوظ کیا تھا۔ چیف جسٹس نے 22 فروری کو انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ حکمران اتحاد نے بینچ میں شامل 2 ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پر اعتراض اٹھایا تھا۔جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے بھی خود کو بینچ سے علیحدہ کرلیا تھا جس کے بعد چیف جسٹس نے دوبارہ 5 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔پنجاب اور کے پی انتخابات از خود نوٹس کی 4 سماعتیں ہوئیں۔ 28 فروری کو 7 گھنٹے کی طویل سماعت میں فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

ٹیریان وائٹ سے متعلق تمام ریفرنسز ریکارڈ پر لانے کا حکم

Related Articles

Back to top button