سولر سسٹم لگوا کر گھریلو بجلی بیچنا کتنا مشکل ہے؟


موسم گرما کا آغاز ہوتے ہی شہریوں کو بڑے بڑے بجلی بلوں کے ڈرائونے خواب آنا شروع ہو جاتے ہیں، جس سے بچنے کیلئے لوگ آج کل اپنے گھروں پر سولر سسٹم لگوا رہے ہیں۔ لیکن گھر میں سولر سسٹم لگوانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، سولر کمپنیاں بجلی کا بل صفر کرنے کیلئے بھاری معاوضوں کا مطالبہ کرتی ہیں جبکہ گرین میٹر کی تنصیب کیلئے الگ سے پچاس ہزار طلب کیے جاتے ہیں۔ جن گھروں میں سولر سسٹم لگتا ہے وہاں گرین میٹر نصب کیے جاتے ہیں۔ گرین میٹر دو طرفہ میٹر ہوتا ہے جس میں سسٹم سے گھر پر آنے والی اور گھر سے سسٹم میں واپس جانے والی بجلی کے یونٹس ماپنے کا نظام موجود ہوتا ہے۔
اپنے گھر پر سولر سسٹم لگانے کے خواہشمند صارفین کا کہنا ہے کہ گھر پر دس کلو واٹ کا سولر سسٹم لگوانے کیلئے متعلقہ کمپنیاں گیارہ لاکھ روپے معاوضہ طلب کرتی ہیں جبکہ گرین میٹر لگوانے کے لیے علیحدہ سے 50 ہزار روپے بھی دینا ہوں گے۔ سولر سسٹم کی تنصیب ایک طویل عمل ہے جس میں پہلے کمپنی سولر سسٹم انسٹال کرنے کے بعد اس کے حوالے سے تمام تکنیکی معلومات پر مبنی فائل تیار کرتی ہے پھر اسے متعلقہ ایس ڈی او کے دفتر لے جانا ہوتا ہے، ایس ڈی او آفس تمام دستاویزات کا جائزہ لے کر پھر ایک لیٹر جاری کرتا ہے جسکے بعد ایک انسپیکشن سرٹیفیکیٹ حاصل کیا جاتا ہے، انسپیکشن آفس کے اہلکار موقع پر جا کر سولر سسٹم کا جائزہ لیتے ہیں اور اس کے حفاظتی نظام سے مطمئن ہو کر سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں جسے ایس ڈی او آفس جمع کروانا پڑتا ہے۔ ایس ڈی او آفس اس کے بعد گرین میٹر کے لیے ڈیمانڈ نوٹس جاری کرتا ہے جس کی فیس جمع کروا کر رسید دوبارہ ایس ڈی او آفس میں جمع کروائی جاتی ہے۔ اس کے بعد گرین میٹر کا انتظار شروع ہو جاتا ہے جس میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔
ایک سولر کمپنی کے مالک نے بتایا کہ گرین میٹر لگوانے پر ان کی کمپنی کے عملے کو آئیسکو سٹاف کی مدد لینا پڑتی ہے اور مختلف دفاتر میں کئی چکر بھی لگانے پڑتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ بھی عملے کا پراسس جلدی کرنے کے لیے تعاون حاصل کرنے پر بھی ’خرچہ‘ آتا ہے، اگر خرچہ نہ کیا جائے تو سو طرح کے روڑے اٹکائے جاتے ہیں اور گرین میٹر کی شرائط اتنی سخت کر دی جاتی ہیں کہ اس کا حصول مہینوں بعد بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ سولر پاور سسٹم گھروں پر لگانے کے لیے کمپنیاں صارفین کو دو آپشن دیتی ہیں، ایک آف گرڈ سسٹم ہے جس کے تحت گھر سے پیدا ہونے والی بجلی گھر پر ہی خرچ کی جاتی ہے، لیکن اس کیلئے بیٹریوں کا بھاری خرچ بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ اس لیے زیادہ تر لوگ آن گرڈ سسٹم کا انتخاب کرتے ہیں جس کے تحت صارف اپنی بجلی ڈیسکوز یعنی بجلی کی سپلائی کمپنی کو ایکسپورٹ کرتا ہے اور گرڈ سے رات کے لیے بجلی امپورٹ کرتا ہے، اس آن گرڈ سسٹم میں دن کے وقت پیدا ہونے والی بجلی گھر کی ضرورت پوری کرنے کے بعد گرڈ میں چلی جاتی ہے اور اگر صارف کی پیدا کردہ بجلی کے یونٹس امپورٹ کردہ بجلی سے زیادہ ہوں تو آئیسکو اسے اس بجلی کے پیسے دیتا ہے۔
صارف سے بجلی تو تقریباً دس روپے فی یونٹ کے حساب سے خریدی جاتی ہے لیکن صارف کو رات کو پیک آورز کے وقت فراہم کی جانے والی بجلی کی قیمت تقریباً 25 روپے فی یونٹ دی جاتی ہے، اس طرح گویا صارف کو تقریباً اڑھائی یونٹ کے بدلے میں پیک آورز کا ایک یونٹ ملتا ہے، تاہم باقی اوقات میں بجلی کا امپورٹ کیا ہوا ایک یونٹ ایکسپورٹ کے ایک یونٹ کے برابر ہی ہوتا ہے۔صارفین کا کہنا ہے کہ کمپنیاں بجلی کی قیمت اتنی کم ادا کرتی ہیں کہ اگر انکا بل بجلی کی امپورٹ اور ایکسپورٹ کے بعد زیرو ہو جائے تو یہی غنیمت ہے۔

Related Articles

Back to top button