بنیادی انسانی حقوق پر فیصلہ کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کو ہے

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ عدالتیں ایگزیکٹو آرڈرپاس نہیں کرسکتیں، بنیادی انسانی حقوق پر فیصلہ کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے۔ آئین 90 روز میں الیکشن کا کہتا ہے تو اس پر عملدرآمد کرانا ہمارا فرض ہے۔

دستورپاکستان میں اقلیتوں کوحاصل حقوق کے موضوع پرکانفرنس کرتے ہوئے چیف جسٹس نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس اے آر کارنیکلئس نے بہترین خدمات انجام دیں، جسٹس اےآرکارنیکلئس نے سپریم کورٹ کو 17 سال دیئے ہیں، وہ جوڈیشل سسٹم کیلئے طرہ امتیاز تھے، وہ اچھے قانون دان اور سادگی پسندتھے۔ انہوں نے 23 سال کی عمر میں آئی سی ایس پاس کیا۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جسٹس اے آرکانیلیئس جب ریٹائر ہوئے تو ان کے کوئی اثاثے نہیں تھے، ان کی زندگی ججز کے لئے مثال ہے، پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے، آئین پاکستان اقلیتوں کے حقوق کا ضامن ہے، 1964ء میں 2 صوبوں نے جماعت اسلامی پر پابندی لگائی، انہوں نے کہا یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ مولانا مودودی کیس میں پابندی ہٹا دی گئی، جسٹس نے کہا حکومت یا ایگزیکٹو افسر بنیادی انسانی حقوق کا فیصلہ نہیں کر سکتا، بنیادی انسانی حقوق پر فیصلہ کرنےکااختیارسپریم کورٹ کوحاصل ہے۔ سپریم کورٹ آئینی ا دارہ ہے اور ہم اس کے ایک حصے کی طرح کام کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میرٹ پر بات کرتی ہے تو اس کی ججمنٹ کو اخلاقی اتھارٹی حاصل ہوتی ہے، آئین کے مطابق چلنے کی ضرورت ہے، کوئی بہانہ تلاش نہیں کرنا چاہیے، آپ اس کو تنازع کہیں لیکن میں اسے تنازع نہیں کہوں گا، آپ کہتے ہیں ہم اس کو سپورٹ کرتے ہیں، میں سپریم کورٹ کا حصہ ہوں میری انفرادی حیثیت ہے، آپ آئین اور قانون کا تحفظ چاہتے ہیں تو سپریم کورٹ کو سپورٹ کریں، سپریم کورٹ آئینی ادارہ ہے اور ہم اس کے ایک حصے کی طرح کام کریں گے۔ عدالتوں کے فیصلوں کو اخلاقی اتھارٹی حاصل ہوتی ہے۔ اگر کسی فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جاتا تو اس کو حتمی تصور کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے، دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 80 ہزار سے زائد جانیں گنوائیں، عدالتیں ایگزیکٹو آرڈرپاس نہیں کرسکتیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال ںے کہا کہ کم شرح خواندگی اور اجتہاد کے باعث مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملا، انسانی بنیادی حقوق کی حفاظت عدلیہ کی بنیادی ذمے داری ہے، آئین کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، انسانی حقوق کا نفاذ ریاست کی اولین ترجیح ہے، عدالتی احکامات پر عمل درآمد ریاستی اداروں کی اولین ترجیح ہے۔جب سچائی سے گریز کیا جائے تو انصاف سے گریز کیا جاتا ہے،عدالتوں کے فیصلوں کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے۔ آئین 90 روز میں الیکشن کا کہتا ہے تو اس پر عملدرآمد کرانا ہمارا فرض ہے، ہمارے فیصلے پر آج عمل نہیں ہوتا تو وقت ثابت کرے گا اور کل اس پر عمل کرنا پڑے گا، اللہ انصاف کے لیے جج کا انتخاب کرتا ہے، جج کے سامنے سچ اور جھوت ہو تو اسے یقین ہونا چاہیے خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔

Related Articles

Back to top button