کیا انڈیا کی طرح پاکستان بھی کرپٹو کرنسی لیگل کر دے گا؟

انڈیا میں کرپٹو کرنسی پر 30 فیصد ٹیکس لگا کر اس کی تجارت کو قانونی قراردینے کے بعد حکومت پاکستان سے بھی ایسا ہی کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ جہاں ایک طرف پاکستان میں کرپٹو کرنسی پر مکمل پابندی لگانے کی بات کی جا رہی ہے وہیں دوسری جانب انڈیا نے اعلان کیا ہے کہ کرپٹو کرنسی جیسے ڈیجیٹل اثاثہ جات کے لین دین پر 30 فیصد ٹیکس لگایا جائے گا۔ اس اعلان کو انڈیا میں کرپٹو کرنسی کو قانونی درجہ دینے کی سمت میں پہلے قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے بھارتی وفاقی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے وفاقی حکومت کا بجٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ کسی بھی قسم کے ورچوئل ڈیجیٹل اثاثے کی لین دین سے ہونے والی آمدن پر 30 فیصد ٹیکس لگایا جائے گا۔ اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ انڈیا اس سال اپنی ڈیجیٹل کرنسی کا بھی آغاز کرے گا۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کرپٹو کرنسی پر ٹیکس کے اعلان کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت نے اسے قانونی قرار دے دیا ہے بلکہ یہ اس سمت میں پہلا قدم ہے۔ واضح رہے کہ کرپٹو کرنسی انڈیا میں غیر قانونی نہیں تاہم اس کی قانونی حیثیت پر حکومتی اداروں میں بحث جاری ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا لین دین غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ 2018 میں سٹیٹ بینک آف پاکستاننے ایک اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں اس بات کو باور کروایا گیا تھا کہ کرپٹو کرنسی کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
اس اعلامیے میں بینکوں کو تجویز کیا گیا تھا کہ وہ اپنے صارفین کو کرپٹو کرنسی میں لین دین کی سہولت فراہم نہ کریں۔ گذشتہ سال گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا تھا کہ ان کا ادارہ کرپٹو کرنسی پر تحقیق کر رہا ہے۔ تاہم سٹیٹ بینک کے مؤقف کو عدالت میں چیلنج کیا گیا تو بینک نے سندھ ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ کرپٹوکرنسی ’غیر قانونی‘ نہیں۔
ہمارا نظام فوری تبدیلی برداشت نہیں کر سکتا
سندھ ہائی کورٹ نے گذشتہ سال حکومتِ پاکستان کو تین ماہ میں کرپٹو کرنسی پر قانونی سازی کا حکم دیا تھا۔ ساتھ ہی سندھ ہائی کورٹ نے ایک کمیٹی قائم کرنے کے احکامات جاری کیے جس نے حال ہی میں تجویز دی ہے کہ کرپٹو کرنسی کو ملک میں مکمل طور پر ممنوع قرار دیا جانا چاہیے۔
ان حالات میں ابھی واضح نہیں ہے کہ کیا پاکستانی حکومت کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دینا چاہتی ہے اور اس حوالے تحقیق اور قانون سازی کر رہی ہے یا پھر پاکستانی حکام نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اسے بند کر دیا جائے۔ تاہم کرپٹو کرنسی کے لین دین کا کام تاجروں کو سکھانے والی کمپنی ’کرپٹو برادرز‘ کے سید عون کا کہنا ہے کہ پاکستان بھی انڈیا جیسا اقدام لے سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ٹیکس لگانے سے پاکستان کو دو فائدے ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ جو لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہماری حکومت اسے قانونی شکل نہیں دے رہی، ان کا اعتراض ختم ہو جائے گا۔ دوسرا یہ کہ ریگولیٹری فریم ورک میں آنے سے جو فراڈ ہو رہا ہے، وہ ختم ہو جائے گا۔ سید عون کہتے ہیں کہ اگر اس پر ٹیکس لگا دیا جاتا ہے تو جتنی بڑی ایکسچینجز ہیں، ان کو حکومتِ پاکستان ایک دستاویز دے سکتی ہے کہ جو بھی کوئی پاکستانی شہری آپ کے پاس اکاؤنٹ کھولے تو ہمیں فلاں فلاں معلومات فراہم کی جائیں۔ یہ دستاویز پھر صارفین سے پُر کروا کر ایکسچینجز حکومت کے ساتھ شیئر کر سکتی ہیں۔
پھر اگر کسی شہری کے اکاؤنٹ میں ظاہر کردہ اثاثہ جات سے زیادہ رقم منتقل کی جاتی ہے تو ایکسچینج حکومت کو بتا سکتی ہے کہ آپ کا فلاں شہری یا تو ٹیکس چوری کر رہا ہے یا فراڈ کر رہا ہے۔ سید عون کا کہنا تھا کہ ایک اور سبق جو پاکستانی حکومت کو انڈیا سے سیکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ٹیکس لگانے سے آپ صرف کرپٹو کرنسی کی تجارت کو قانونی حیثیت دے رہے ہیں، بطور کرنسی اس کے استعمال کو نہیں۔
یعنی آپ بطور ایک ڈیجیٹل اثاثہ اس کے لین دین کی اجازت دے رہے ہیں، نہ کہ آپ اس بات کی اجازت دے رہے ہیں کہ کوئی اس کی مدد سے خریداری کرے۔ انڈیا نے بھی فی الحال اسے بطور کرنسی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔