20ویں صدی میں ’’کراس رائٹنگ‘‘ تحریریں کیوں پروان چڑھیں؟

اگر کاغذ مہنگا اور نایاب ہو جائے تو تحریر لکھنے والے کی کوشش ہوگی کہ کم سے کم صفحے پر زیادہ سے زیادہ لکھا جائے، 20ویں صدی میں خانہ جنگی کے دوران بھی ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی تو تحریروں کے نئے انداز ’’کراس رائٹنگ‘‘ اور ’’کراس شیڈنگ‘‘ متعارف کرائے گئے۔
اگرچہ یہ طرزِ تحریر بعض افراد کے لیے حیرانی کا باعث ہو سکتا ہے تاہم ایک زمانے میں ’کراس رائٹنگ‘ کا طریقہ عام طور پر رائج تھا۔ اس طرز تحریر کو ’کراس شیڈنگ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔
تحریر میں عام طور پر لکھنے والے اپنی تحریر مکمل کرنے کے لیے صفحے کی خالی رہ جانے والی جگہوں پر بھی تحریر کیا کرتے تھے، طریقہ کسی قسم کی جاسوسی کے لیے استعمال نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی کسی قسم کے ’کورڈ ورڈز‘ لکھے جاتے تھے بلکہ یہ عام سا طریقہ تھا جس میں تحریر کنندہ کاغذ کی خالی جگہ کو بھی استعمال کرتے تھے۔
ویب سائٹ لینگویج ہیومینیٹیز کے مطابق 20 ویں صدی میں خانہ جنگی کے دور میں لیٹر پیڈز کی قیمت کافی بڑھ گئی تھی، علاوہ ازیں پوسٹل چارجز میں بھی کافی اضافہ ہو گیا تھا، اس وجہ سے لوگ اس بات پر مجبور ہوگئے تھے کہ وہ اپنا خط ایک ہی کاغذ پر تحریر کریں اور مکمل معلومات اسی ایک کاغذ پر فراہم کی جائیں تاکہ کم سے کم خرچ پر خط ارسال کیا جا سکے۔
یہ طریقہ اس وقت ’کراس رائٹنگ‘ یا ’کراس شیڈنگ‘ کے طور پر معروف تھا۔ اس وقت وہ لوگ صفحے پر مختلف سمتوں میں تحریر کرتے تھے تاکہ کم سے کم جگہ میں زیادہ سے زیادہ تحریر کی جا سکے جب صفحہ پورا ہو جاتا تو تحریر کنندہ صفحے کو اُلٹ کر باقی رہ جانے والی تحریر کو ان سطور کے عکس میں لکھتا تھا جو پہلے سے لکھی گئی تھیں۔
بعض اوقات کراس رائٹنگ کے ماہر صفحے کے گوشوں کو بھی تحریر کے لیے استعمال کرتے تھے اور وہاں بھی باقی رہ جانے والی باتوں کو تحریر کر دیتے تھے۔انیسویں صدی کے وسط اور 20 ویں صدی کے آغاز میں جب خانہ جنگی عروج پر تھی اس وقت مذکورہ طرز تحریر کا رواج عام تھا۔
بیشتر افراد اس طریقے کو ہی اختیار کرتے تھے، اس کی وجہ بیان کی جا چکی ہے کہ اس وقت جس کاغذ پر خط لکھا جاتا تھا اس کی قیمت کافی زیادہ ہوتی تھی، علاوہ ازیں ڈاک ٹکٹوں کی قیمت بھی بہت زیادہ تھی، اس وقت کاغذ کے سائز اور صفحات کی تعداد کے مطابق ڈاک کے ٹکٹ جاری کیے جاتے تھے۔ اضافی کاغذ یا مخصوص سائز سے بڑے کاغذ پر اضافی ٹکٹ لگائے جاتے تھے جس سے اخراجات بڑھ جاتے تھے۔
اسی وجہ سے خط لکھنے والے صفحے کے خالی رہ جانے والے ہر حصے کو استعمال کرتے تھے تاکہ اضافی اخراجات سے بچا جاسکے، ویب سائٹ کے مطابق ماضی کے ان خطوط کو دیکھنے پر یہ محسوس ہوتا تھا کہ تحریر میں کسی قسم کے خفیہ کوڈز استعمال کیے گئے ہیں جنہیں ڈی کوڈ کرنا ہوگا۔
تاہم اسی کوئی بات نہیں تھی کیونکہ ماضی میں یہ طریقہ عام طور پر رائج تھا۔ قاری کے لیے خط کی تحریر جاننے کے لیے کسی قسم کے خفیہ کوڈ استعمال نہیں کیے جاتے تھے۔ عام طور پر جو طریقے رائج تھے وہ ترچھی تحریر کے تھے یا اوپر سے نچے کی لائنیں بھی تحریر کی جاتی تھیں۔
اس وقت عام رواج یہی تھا اس لیے خط پڑھنے والوں کو ڈی کوڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ کون سی لائن کہاں ختم ہو رہی ہے اور اس کے بعد کا تسلسل کہاں سے شروع ہو رہا ہے، مشہور مصنفین بھی کراس رائٹنگ کا استعمال کرتے تھے ۔خطوط کے حوالے سے معروف ویب سائٹ کے مطابق ماضی میں جب کراس رائٹنگ کا طریقہ عام طور پر رائج تھا اس وقت کے مشہور مصنفین اور رائٹرز جن میں ھینری جیمس، جین اوسٹن اور چارلز ڈارون بھی کاغذ کی بچت کرتے ہوئے کراس رائٹنگ استعمال کیا کرتے تھے۔
خوش قسمتی سے اِس دور میں کسی انتہائی پیچیدہ طرز تحریر کو اپنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اِس وقت کاغذ کی ارزانی اور فراوانی ہے اسی لیے کسی کو بھی ماضی کی طرح کراس رائٹنگ کی ضرورت نہیں پڑتی، البتہ آج کے دور میں جب ہمیں کاغذ کم استعمال کرنا چاہئے کیونکہ اس سے ماحول کی حفاظت کی جا سکتی ہے اس لیے کیوں نہ ہم بھی صفحے کی دونوں سمتوں کو استعمال کریں بجائے اس کے کہ ایک ہی سمت میں خط لکھیں اور دوسری سمت کوخالی چھوڑ دیں۔